تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری کی برسی

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد ریڈیو سے قیامِ پاکستان کا جو اعلان نشر ہوا تھا، وہ کس کا لکھا ہوا تھا۔ یہ حفیظ ہوشیار پوری تھے۔

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں‌ لیکن ہم نہ ہوں گے

حفیظ ہوشیار پوری کی یہ مشہور غزل مہدی حسن کی آواز میں‌ کئی دہائیوں سے مقبول ہے۔ آج بھی باذوق اور موسیقی کے رسیا اس کلام کو بہت ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ 10 جنوری 1973ء کو اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری انتقال کرگئے تھے۔

حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبدالحفیظ سلیم تھا۔ وہ 5 جنوری 1912ء کو دیوان پورہ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے تھے، مگر اپنے آبائی وطن ہوشیار پور کی نسبت سے حفیظ ہوشیار پوری کہلائے۔ تقسیم کے بعد لاہور اور پھر کراچی آگئے تھے

میٹرک، اسلامیہ ہائی اسکول، ہوشیار پور کیا اور 1933ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں بی اے اور اگلے ہی تعلیمی سال میں ایم کیا، اس کے بعد حفیظ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے تھے۔ یہی نوکری قیامِ پاکستان کے بعد جاری رہی اور وہ ریڈیو پاکستان کے لیے علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تو ابتدا میں نظمیں بھی لکھیں اور منظوم تراجم بھی کیے، مگر ان کی شناخت ان کی غزل گوئی اور تاریخ گوئی بنی۔ حفیظ ہوشیار پوری کا مجموعۂ کلام ’’مقام غزل‘‘ کے عنوان سے ان کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔ حفیظؔ دس گیارہ برس کی عمرسے ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنے لگے تھے اور انھوں نے تاریخ گوئی میں اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔

حفیظؔ فلسفہ کے طالب علم رہے اور یہی وجہ ہے کہ شاعری میں فلسفیانہ مسائل سے دامن نہیں بچا سکے لیکن ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں۔ ان کے ہاں‌ جو فلسفیانہ خیالات ملتے ہیں وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اسے بیزار نہیں کرتے۔ حفیظؔ کی غزل اسلوبی لحاظ سے بھی روایتی غزل سے منسلک ہے۔ انھوں نے کلاسیکی انداز سے کبھی صرفِ نظرنہ کیا۔ آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل ثقیل و کرخت الفاظ سے گریز نے ان کی غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔

طویل عرصہ علیل رہنے والے حفیظ ہوشیار پوری کو ان کی وفات کے بعد کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کے لوحِ مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے۔

سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہوگئے
بارِ امانتِ غم ہستی اتار کے

Comments

- Advertisement -