تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

علم و ادب میں‌ ممتاز خواجہ احمد عبّاس کا یومِ‌ وفات

یکم جون 1987ء کو ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ناول اور ڈراما نویس، صحافی اور فلم ساز خواجہ احمد عبّاس وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 72 برس تھی۔

خواجہ احمد عباس 7 جون 1914ء میں پانی پت ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔ علم و ادب سے لگاؤ اور لکھنے پڑھنے کا شوق میدانِ صحافت میں لے آیا۔ اپنی کہانیوں اور افسانوں‌ کی بدولت ہم عصروں‌ میں پہچان بناتے چلے گئے اور پھر ناول نگاری، ڈراما نویسی، سفرناموں، خاکہ نگاری اور آپ بیتی تک نہایت کام یابی سے علمی و ادبی سفر جاری رہا۔ اسی عرصے میں فلم سازی کی طرف مائل ہوئے۔ متعدد فلموں‌ کی کہانیاں‌ لکھیں‌ اور ان کے ہدایت کار بھی رہے۔

خواجہ احمد عباس نے اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں‌ میں کئی مضامین بھی تحریر کیے۔ انھوں نے اپنے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا:

ادیب اور تنقید نگار کہتے ہیں میں ایک اخبارچی ہوں، جرنلسٹ کہتے ہیں کہ میں ایک فلم والا ہوں، فلم والے کہتے ہیں کہ میں ایک سیاسی پروپیگنڈٹسٹ ہوں، سیاست داں کہتے ہیں کہ میں کمیونسٹ ہوں، کمیونسٹ کہتے ہیں کہ میں بورژوا ہوں۔ سچ یہ ہے کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں کیا ہوں۔

ان کی چند کتابوں میں سرفہرست میں کون ہوں؟، دیا جلے ساری رات، ایک لڑکی، اگر مجھ سے ملنا ہے، انقلاب کے نام شامل ہیں۔ خواجہ احمد عبّاس کے افسانوی مجموعے زعفران کے پھول، پاؤں میں پھول، اندھیرا اجالا، کہتے ہیں جس کو عشق اور ڈرامے زبیدہ، یہ امرت ہے، چودہ گولیاں، انقلاب کے نام سے شایع ہوئے۔

وہ ایک نہایت باصلاحیت، قابل اور غیر معمولی تعلیم یافتہ شخص تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں ادب سے لے کر فلم سازی تک جہاں‌ اپنے تخلیقی وفور کو ثابت کیا، وہیں سماج کے مختلف پہلوؤں اور کم زوریوں پر بھی ان کی نظر رہی اور وہ اس پر لکھتے رہے۔ انھیں سماجی دانش ور بھی کہا جاسکتا ہے۔

فلمی دنیا میں‌ وہ بڑے اداروں سے وابستہ رہے اور بڑے پردے کی متعدد تنظیموں کے عہدے دار اور رکن بھی رہے۔ خواجہ احمد عباس کی فلمیں عوام میں مقبول تو نہیں ہوئیں، لیکن انھیں‌ ناقدین نے اعلٰی درجے کی کاوش قرار دیا اور انھوں‌ نے اپنی فلموں کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح کے اعزازات اپنے نام کیے۔

Comments

- Advertisement -