تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

یومِ وفات: شہزاد احمد کی شاعری جدید طرزِ احساس کی حامل ہے

شہزاد احمد کا شمار پاکستان کے ان تخلیق کاروں میں‌ ہوتا ہے جنھوں نے جدید طرزِ احساس کو اپنی شاعری کی بنیاد بنایا۔ 60ء کی دہائی میں پہچان بنانے والے اس شاعر کی زندگی کا سفر یکم اگست 2012ء کو تمام ہوگیا آج شہزاد احمد کی برسی منائی جارہی ہے۔

شہزاد احمد 16 اپریل 1932ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آ گئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے نفسیات اور فلسفے میں ایم اے کیا۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ نفسیات کے موضوع پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔ 90ء کی دہائی میں شہزاد احمد کو تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

ان کے شعری مجموعے ’’صدف، جلتی بجھتی آنکھیں، ٹوٹا ہوا پَل، اترے مری خاک پہ ستارے، بچھڑ جانے کی رُت‘‘ کو بہت پذیرائی ملی۔

شہزاد احمد کالج کے زمانے ہی سے مشاعروں میں اپنا کلام سنانے لگے تھے۔ انھیں غزل میں اپنی انفرادیت اور طرزِ احساس کے باعث بڑی توجہ ملی۔ شہزاد احمد کی غزل کا رومانوی لہجہ متاثر کن اور نکتہ آفریں ہے۔ ان کا کلام سادہ اور ندرتِ خیال کے اعتبار سے بلند ہے۔ وہ شعریت اور ابلاغ کے قائل تھے اور یہی وجہ ہے مشکل تراکیب اور پیچیدہ یا غیرعام فہم مضامین کو اپنے شعروں میں جگہ نہ دی۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے:

یار ہوتے تو مجھے منہ پہ برا کہہ دیتے
بزم میں میرا گِلہ سب نے کیا میرے بعد

انھوں نے کئی کتابوں کے اردو زبان میں ترجمے بھی کیے جن میں سے کچھ شاعری پر مشتمل ہیں۔ شہزاد احمد کئی بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ وہ مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ انھوں نے 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔

Comments

- Advertisement -