اتوار, نومبر 10, 2024
اشتہار

یومِ وفات: تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے گیت سرحد پار بھی مقبول ہوئے

اشتہار

حیرت انگیز

تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے کم عمری میں ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور شہرت حاصل کی۔ وہ 1982ء میں آج ہی کے دن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

ان کا تعلق دہلی کے علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔ یوں شعروسخن سے شروع ہی سے دل چسپی رہی اور وہ وقت بھی آیا جب تسلیم فاضلی خود شاعری کرنے لگے۔ ان کا
اصل نام اظہار انور تھا اور وہ 1947ء میں پیدا ہوئے تھے۔

تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

- Advertisement -

تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا تھا۔ تسلیم فاضلی صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
مجھے دل سے نہ بھلانا
کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر ان کے لکھے ہوئے نغمات آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں