تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

مزدور شاعر احسان دانش کا یومِ وفات

22 مارچ 1982ء کو اردو کے نام وَر شاعر، ادیب اور ماہرِ لسانیات احسان دانش وفات پاگئے تھے۔ زندگی کی تلخیوں اور سختیوں کو جھیلتے، کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہوئے احسان دانش نے شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ نام و مرتبہ پایا جو بہت کم شعرا کو نصیب ہوتا ہے۔

قاضی احسان الحق نام اور احسان تخلص تھا۔ وہ 1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن مطالعہ کے شوق اور لگن سے اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ شاعری میں کمال حاصل کیا۔ نوعمری میں تلاشِ معاش میں لاہور آگئے تھے اور یہیں عمر تمام کی۔ انھوں نے ہر قسم کی نوکری اور وہ کام کیا جس سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوسکے۔ وہ کسی دفتر میں چپڑاسی رہے، اور کہیں‌ مالی کا کام سنبھالا تو کبھی بوجھ ڈھو کر اجرت پائی۔ اسی محنت اور مشقّت کے ساتھ شاعری کا سفر بھی جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ مزدور شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

احسان دانش شاعری کی ہر صنف پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی کئی غزلیں، نظمیں مشہور ہیں جو ان کے کمالِ فن اور تخلیقی شعور کا نتیجہ ہیں۔ احسان دانش کے شعری مجموعوں میں حدیثِ ادب، دردِ زندگی، تفسیرِ فطرت، آتشِ خاموش، چراغاں اور گورستان سرِفہرست ہیں۔

لسانیات کا موضوع بھی احسان دانش کی علمی قابلیت اور زبان و بیان پر ان کے عبور کا ثبوت ہے۔ اس میدان میں دستورِ اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ دیا اور حکومتِ پاکستان نے اس کتاب پر احسان دانش کو انعامی رقم دی۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں علمی اور ادبی خدمات انجام دینے پر ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے گئے۔ احسان دانش کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں

آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

احسان دانش کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے

Comments

- Advertisement -