سال 2024 دنیا بھر میں الیکشن کا سال ہے ، دنیا کی آدھی آبادی رواں سال ووٹ کی طاقت کے استعمال کے لیے پولنگ اسٹیشنز کا رخ کرے گی۔ پاکستان کے الیکشن دنیا کے پانچویں بڑے جمہوری انتخابات تصور کیے جاتے ہیں جو کہ اب صرف چند گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے 12 ویں انتخابات ہیں جس میں عوام آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔ قومی اسمبلی کی 266 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 593 جنرل نشستوں پر نمائندے منتخب ہوکر عوام کی نمائندگی کریں گے۔ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کو ملا کر مجموعی طور پر 336 نشستوں ہوں گی، یعنی کسی بھی جماعت کو وفاقی حکومت بنانے کے لیے 169 سیٹیں درکار ہوں گی۔

ایسا کہنا شاید درست نہ ہوگا کہ ملک بھر میں انتخابی مہم آزادانہ اور روایتی طریقے سے زور و شور سے جاری رہی ۔ کیونکہ بظاہر الیکشن کی فضا اور ماحول دکھائی نہیں دیا۔ انتخابی مہم کے حوالے سے شکوے شکایات کرنے والی جماعتوں میں دیگر جماعتوں کے علاوہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی بھی شامل ہیں۔ملک بھر میں پائے جانے والے ایک عام تاثر کے مطابق تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی اور 9 مئی واقعے کے بعد پی ٹی آئی کے معاملات کی خرابی کے باعث رواں الیکشن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم پورے ملک میں بھرپور انداز میں جاری رہی۔ بلاول بھٹو ، آصف زرداری سندھ ، کے پی اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھرپور متحرک نظر آئے مگر ن لیگ کا پورا فوکس صرف پنجاب پر ہی رہا۔

ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزارت عظمٰی کے مضبوط امیدوار میاں نوازشریف یا مریم نواز نے میڈیا کو کوئی انٹرویو نہیں دیا۔دوسری جانب پیپلزپارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار بلاول بھٹو اور آصف زرداری مقامی میڈیا کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا اور عالمی میڈیا کو بھی مسلسل انٹرویوز دیتے رہے۔ن لیگ نے کے پی اور بلوچستان میں تو چند جلسے کیے مگر سندھ میں نہ ہونے کے برابر مہم چلائی گئی ،کراچی میں تو ن لیگ کی انتخابی مہم نہ ہونے کے برابر نظر آئی۔ لگ یہی رہا تھا کہ ن لیگ سندھ میں جی ڈی اے ، ایم کیوایم ، جے یوآئی سمیت دیگر پیپلزپارٹی مخالف جماعتوں کو ساتھ ملا کر پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دے گی۔ اس سلسلے میں لیگی رہنما بشیر میمن کافی متحرک نظر آئے مگر یہ وہ جوش و جذبہ اچانک کہیں تحلیل ہوگیا۔اگر یہ پیپلزپارٹی کے ساتھ اندرون خانہ کوئی ڈیل ہے تو دوسری جانب پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کے گڑھ صوبہ پنجاب پر بھرپور فوکس کررکھاہے۔

بھر میں حالیہ الیکشن کی انتخابی مہم کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی رہا کہ کئی سیاسی جماعتوں نے موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ڈیجیٹل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی۔ کراچی کی حد تک بات کی جائے تو جماعت اسلامی کی ڈیجیٹل میڈیا پر انتخابی بہترین انداز میں جاری ہے۔ تحریک انصاف نے بھی انتخابی نشان چھن جانے کے بعد حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشان کے حوالے سے ووٹرز کو آگہی کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ پیپلزپارٹی نے بھی کسی حد تک ڈیجیٹل میڈیا پر مہم جاری رکھی۔ن لیگ اس دوڑ میں شامل تو تھی مگر ان کی توجہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی جانب زیادہ رہی ۔ اب اسکا فیصلہ تو انتخابی نتائج سے ہی سامنے آئے گا کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ڈیجیٹلائزیشن کا استعمال عوام کو متاثر کرنے میں کتنا کامیاب ہوا ۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان ٹی وی اور پرنٹ میڈیا پر اشتہارات کا بھی بھرپور مقابلہ رہا۔ حیرت انگیز طور پر الیکشن سے پہلے ہی آج مختلف بڑے اخبارات میں چھپنے والے ن لیگ کے اشتہار میں نوازشریف کے وزیراعظم بننے کا اعلان کردیاگیا ہے۔ اشتہار کے الفاظ کچھ یوں ہیں ، ‘‘نوازشریف وزیراعظم ، عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا’’۔ یہ ایک اشتہار ہی صحیح مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ اشتہار صحافتی اصولوں کے مطابق پروپیگنڈہ کے زمرے میں نہیں آتا؟۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کو اس وقت بہت سنگین مسائل درپیش ہیں۔ الیکشن کے نتیجے میں بننےوالی حکومت کے لیے معیشت ، مہنگائی، بےروزگاری کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی صورتحال بھی ایک بڑا چیلنج ہوگی۔ یہ تمام عوامل الیکشن 2024 کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جاری کردہ ووٹر لسٹ کے مطابق الیکشن 2024 میں 12 کروڑ 85 لاکھ سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے اہل ہیں۔ جس میں 53.87 فیصد مرد جبکہ 46.13 فیصد خواتین شامل ہیں۔

نوجوانوں کا ووٹ حالیہ انتخابات میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق نوجوان ووٹر کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یعنی 18 سے 35 سال کے درمیان کے ساڑھے 5 کروڑ سے زائد ووٹرز ووٹ دینے کے لیے اہل ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امیدواران یا سیاسی جماعتیں ملک کا مستقبل کہلانے والے نوجوان طبقے کو ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کرپائیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں نوجوانوں کی توجہ کا مرکز رہنے والے عمران خان الیکشن کی دوڑ سے باہر اور انکی جماعت اپنے انتخابی نشان ‘‘بلے’’ کے ساتھ انتخابی دوڑ میں شامل نہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے حمایت یافتہ امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے جیت جانے والے امیدوار پیپلزپارٹی یا ن لیگ میں بزور یا بخوشی شامل ہوسکتے ہیں۔ اس تمام خدشات کے باوجود بیلٹ بیکس کی طاقت کاانکار ممکن نہیں، ووٹ ڈالنا ضروری ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے ووٹرز ووٹ کی طاقت سے ہی پارٹی کو سیاسی تنہائی سے نکال سکتے ہیں۔ دوسرا منظرنامہ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر امیدوارکے وفاداری بدلناکایقین ہوجائےتوبھی الیکشن سے لاتعلق رہنے کے بجائے اپنا ووٹ اپنے حلقے کے بہترین امیدوار کے حق میں کاسٹ کرکے اپنی امانت کا درست استعمال کیاجاسکتاہے۔

حالیہ الیکشن کے حوالے سے تجزیہ نگاروں اور سیاسی ماہرین کی متفقہ رائے یہی کہ ووٹرز ٹرن آؤٹ جتنا زیادہ ہوگا ،نوجوان طبقہ جتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلے گا روایتی سیاست کو اتنا ہی بڑا دھچکا لگے گا اور الیکشن کا نتیجہ بھی اتنا ہی پُراثر ہوگا۔ اس لیے 8 فروری کو ووٹ ڈالنے کے لیے ضرور باہر نکلیں اور دوسروں کو بھی ووٹ کاسٹ کرنے کی تلقین کریں، بہترین امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کرسکیں تاکہ اگلے 5 سال کم از کم اپنے نمائندے کے انتخاب کے حوالے سے پچھتانے کے بجائے مطمئن رہ سکیں۔

محمد عبدالرحمٰن ایک بڑے صحافتی ادارے سے وابستہ ہیں اور سیاسی اور سماجی موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار مختلف فورمز پر کرتے رہتے ہیں

 

Comments