واشنگٹن: ایک امریکی ڈاکٹر نے اپنے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ کس طرح کرونا وائرس کے مریض پارٹیز کرنے اور لوگوں کو جمع کرنے میں مصروف ہیں، انہوں نے سخت دلگرفتگی سے کہا کہ لوگوں کی ذہنیت بدلنا ناممکن ہے۔
امریکی ریاست رہوڈ آئی لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک ایمرجنسی فزیشن ڈاکٹر ربیکا کرب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کیا کہ ان کے ایک کووڈ پازیٹو مریض نے انہیں بتایا کہ اس نے تھینکس گونگ پر ایک بڑی پارٹی دی تھی جس میں دوستوں اور اہلخانہ سمیت 22 افراد نے شرکت کی۔
اگلے دن خاندان کے ایک شخص کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ پازیٹو آگیا، اس کے بعد ایک ایک کر کے پارٹی میں شریک تمام 22افراد کرونا وائرس میں مبتلا ہوگئے۔
اس ٹویٹ کے ذریعے ڈاکٹر نے یہ بتانا چاہا کہ اس وبا سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے کے باوجود امریکا میں اب بھی لوگ احساس سے عاری ہیں اور کسی طور سمجھنے کو تیار نہیں۔
ڈاکٹر نے بعد ازاں یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا لیکن تب تک یہ وائرل ہوچکا تھا۔
بعد ازاں انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ میرا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ہماری ذہنیت اور سوچ کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، کرونا وائرس سے متاثر افراد اور ان کے اہلخانہ کی تکلیف اس ملک کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے اور اس کے لیے کوئی ویکسین نہیں بن سکے گی۔
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے اپنے ساتھی میڈیکل ورکرز کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔
Ok, gonna mute and take a little break.
I did not want to cause more fighting, more digging in of heels.
Every healthcare worker I know is working as hard as they can. There’s no blame, no shaming. We just want people to be healthy and safe. And yes, we are people too.
❤️— Rebecca Karb (@DrKarb) December 9, 2020
خیال رہے کہ امریکا کرونا وائرس سے دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ملک بن چکا ہے اور کووڈ مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے سرفہرست ہے۔
امریکا میں اب تک 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد کرونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ کووڈ سے ہلاک مریضوں کی تعداد لگ بھگ 3 لاکھ ہوچکی ہے۔
ملک میں فعال کیسز کی تعداد 64 لاکھ سے زائد ہے جبکہ 93 لاکھ سے زائد افراد اس سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔