تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

گم شدہ امیر خسرو

شاعری، کم از کم بڑی شاعری محض شعور کا معاملہ نہیں ہوتی۔ وہ چھوٹے شاعر ہوتے ہیں جنھیں پوری خبر ہوتی ہے کہ وہ شعر میں کیا کررہے ہیں۔ بڑا شاعر خبر اور بے خبری کے دوراہے پر ہوتا ہے۔ اسے چھوٹے شاعروں اور عام لوگوں سے زیادہ خبر ہوتی ہے۔ اپنے پورے عہد سے زیادہ اسے خبر ہوتی ہے۔ بس اسے ایک خبر نہیں ہوتی۔ یہ کہ اسے کتنی خبر ہے۔

یہی معاملہ تاریخی عمل کا ہے۔ تاریخی عمل بھی محض شعور کی سطح پر جاری نہیں رہتا۔ وہ اپنے لیے بہت سے پیچیدہ، پراسرار اور ڈھکے چھپے راستے بناتا ہے۔ وہ اپنا کام نکالنے کے لیے جن شخصیتوں کو چنتا ہے، لازم نہیں ہے کہ وہ شخصیتیں اپنے فعل وعمل کے مضمرات سے پوری طرح واقف ہوں۔

امیر خسرو نے فارسی شاعری میں جو کچھ کہا اس کی اہمیت اور معنویت سے وہ اپنے زمانے کے مسلمان اشراف کے ادبی معیارات اور مذاقِ سخن کے واسطے سے باخبر تھے۔ مگر نئی زبان میں وہ جو کچھ کہہ رہے تھے اور کر رہے تھے اس کے معنٰی تو مستقبل میں پوشیدہ تھے۔ امیر خسرو کے صرف باطن کو اس کی خبر تھی۔

چلیے، یہ بھی دیکھ لیں کہ وہ کیا تاریخی عمل تھا، جس نے امیر خسرو کو جنم دیا تھا اور اپنا کام نکالنے کے لیے امیر خسرو کو چُنا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان اپنے تازہ تازہ تخلیقی جذبے کے ساتھ اس برصغیر میں اپنا اعلان کررہے تھے۔ ابھی ان کے یہاں کسی خوف نے راہ نہیں پائی تھی۔ اپنے تخلیقی جوہر پر اعتبار تھا۔ اس اعتبار کے ساتھ وہ حکمت و دانائی کی تلاش میں چین تک کا بھی سفر کرسکتے تھے اور ارد گرد بکھری ہوئی حکمت کو بھی سمیٹنے اور ہضم کرنے میں دلیر تھے۔

اس دلیرانہ رویے نے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جو جذب کرنے، پھیلنے اور چھا جانے کی توانائی سے مالا مال تھی۔ امیر خسرو اسی توانائی کا کرشمہ تھے۔

امیر خسرو نے فارسی شاعری خوب کی، مگر اس پر قانع نہیں ہوئے۔ انہوں نے گیت کہے، دوہے، پہیلیاں، کہہ مکرنیاں، دو سخنے، انمل۔ یہ ان کی نئی شاعری تھی۔

کوئی نمود کرتی ہوئی تہذیب اور کوئی اُبھرتا ہوا تخلیقی جوہر روایت میں مقید ہو کر نہیں رہ سکتا۔ ایک نئے گرد و پیش میں نمو کرتی ہوئی یہ تہذیب ورثے میں ملی ہوئی شعری روایت پر قانع نہیں رہ سکتی تھی۔ اس کے تجربے اہلِ عجم کے تجربوں سے مختلف تھے۔ یہ تجربے نیا اظہار مانگتے تھے۔

صحیح ہے کہ امیر خسرو نے اپنی فارسی شاعری میں ان تجربوں کو سمونے کی بہت کوشش کی۔ صحیح ہے کہ انہوں نے اپنی غزل اور مثنوی کو عجمیت کی ڈبیا میں بند کرکے نہیں رکھا۔ یہاں کے رنگوں اور خوشبوؤں کے لیے یہاں کے لفظوں اور لہجوں کے لیے انہوں نے اپنی فارسی غزل اور مثنوی کے سارے دریچے کھول رکھے تھے، مگر اصناف کو بہرحال اپنی عجمی روایت کی بھی اطاعت کرنی تھی۔

بس یہیں سے امیر خسرو کو اپنی فارسی شاعری کے ناکافی ہونے کا احساس ہوا اور یہاں سے انہیں بیان میں وسعت کی تلاش ہوئی کہ جو تجربے اس مٹی کی دین ہیں، ان کے اظہار کی گنجائش نکل سکے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے امیر خسرو ایک باغی شاعرکا روپ دھارتے نظر آتے ہیں۔

بات کو سمجھنے کے لیے یوں کہہ لیجیے کہ ہماری شعری روایت میں امیر خسرو، راشد اور میرا جی سے بڑے باغی ہوئے ہیں۔ راشد اور میرا جی کی نظمِ آزاد کو اس تہذیب کی سند حاصل تھی جس کا اس وقت کے محکوم ہندوستان پر بہت رعب تھا۔ امیر خسرو نے ہیئت کے جو تجربے کیے اس کا اشارہ انہوں نے کسی ایذرا پاؤنڈ اور کسی ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ سے نہیں لیا تھا۔

امیر خسرو اپنے وقت کے خود ہی ایذرا پاؤنڈ تھے اور خود ہی ٹی ایس ایلیٹ تھے۔ پھر جن دیسی اصناف پر وہ مائل ہوئے، وہ اس عوامی ادبی روایت سے لی گئی تھیں جنہیں ثقہ ادبی مذاق رکھنے والے مسلمان اشراف خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے۔ اس اعتبار سے امیر خسرو کی یہ شاعری ہماری شعری روایت میں پہلی نئی شاعری ہے۔

(ممتاز فکشن رائٹر، منفرد اسلوب کے حامل ادیب انتظار حسین کے مضمون "گم شدہ امیر خسرو سے اقتباس)

Comments

- Advertisement -