اشتہار

نوشاد کی نوٹ بک اور وہ عورت!

اشتہار

حیرت انگیز

لکھنؤ میں ‘بھوندو اینڈ کمپنی کے مالک کے تو سان گمان میں‌ نہ ہوگا کہ جس بچّے کو اس نے اپنی دکان پر صفائی کے لیے رکھا ہے، وہ ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت بنے گا، مگر خود نوشاد نے بھی یہ نہیں‌ سوچا تھا کہ وہ ایک اونچے درجے کے کلاکار بنیں گے اور بولی ووڈ میں انھیں ‘موسیقارِ اعظم’ کہا جائے گا۔

فنِ موسیقی اور سُر سنگیت کی دنیا کے اس عالی مقام کا پورا نام نوشاد علی تھا۔ 25 دسمبر 1919 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ عمر کا چھٹا سال تھا جب سنگیت سے ایسے قریب ہوئے کہ آخری سانس تک یہ تعلق قائم رہا۔ نوشاد نے کلاسیکی موسیقی اور لوک گیتوں کو خوب صورت انداز میں پیش کیا اور ان کی 67 فلموں کے لیے موسیقی کانوں میں‌ رس گھولتی رہی۔ موسیقار نوشاد نے 5 مئی 2006ء کو ممبئی میں آنکھیں ہمیشہ کے لیے موند لی تھیں۔ انھیں دادا صاحب پھالکے سمیت کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

موسیقار نوشاد کی زندگی کے حالات اور فن کی دنیا کے کئی دل چسپ اور انوکھے قصّے آپ ان کی سرگزشت میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں ہم اس کتاب سے دو پُرلطف واقعات نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

- Advertisement -

"ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار رہتا کہ اپنا ہوش نہ رہتا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پر چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوتیں۔ میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا، مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑ پٹی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکی۔ اس نے مراٹھی زبان میں مجھ سے پوچھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھا، اپنا کوٹ اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ پر آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان پر پہنچا۔ گھر آ کر اپنی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ کر جسم میں لرزہ بھی پیدا ہوا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔”

نوشاد کی اس سرگزشت کا یہ قصّہ بھی ان کی اپنے فن سے محبّت اور کام کے جنون کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے لکھا:

"اپنے کام کی سرمستی میں ایک مرتبہ لوکل ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ نوٹ بک جس میں گیت تھے۔ جب سگریٹ کی وجہ سے انگلی جلنے لگی تو میں نے اپنی دانست میں سگریٹ چلتی ٹرین سے پھینک دیا، کچھ لمحے بعد احساس ہوا کہ انگلیاں اب بھی جل رہی ہیں تو پتہ چلا کہ سگریٹ کی جگہ نوٹ بک چلتی ٹرین سے پھینک دی ہے۔ پریل قریب تھا۔ اسٹیشن پر اترا اور ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ چلتے چلتے کھار پہنچا۔ وہاں مجھے اپنی نوٹ بک پڑی مل گئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نوٹ بک مل گئی کیوں کہ اس میں وہ گیت بھی تھا جو دوسرے دن مجھے ریکارڈ کرانا تھا۔ ”

اس عظیم موسیقار کا فلمی سفر 48 سال پر محیط رہا۔ ان کی موسیقی میں‌ فلم مغلِ اعظم، انداز، میلہ، آن، اعلان، انمول گھڑی، انوکھی ادا، مدر انڈیا، گنگا جمنا، پاکیزہ اور رام اور شیام مشہور فلمیں ثابت ہوئیں‌۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں