20.9 C
Dublin
بدھ, مئی 29, 2024
اشتہار

غیاث احمد گدی اور جامِ سفال!

اشتہار

حیرت انگیز

آزادی کے بعد بھارت میں جو افسانہ نگار سامنے آئے ان میں غیاث احمد گدی بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے سیدھے سادے اور علامتی و استعاراتی انداز میں بھی افسانے لکھے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ استعاراتی و علامتی انداز بیان کے باوجود ان میں کہانی پن موجود ہے۔ غیاث احمد گدی نے اپنی افسانہ نویسی کی ابتدا خاص قسم کے معاشرتی افسانوں سے کی جن میں معاشرہ کے مختلف پہلوؤں کو مختلف زاویوں سے پیش کیا۔

اردو کے افسانہ نگار اور ہندوستانی زبانوں کے فکشن کو اردو کے قالب میں‌ ڈھالنے کے لیے پہچان رکھنے والے سلام بن رزاق نے غیاث احمد گدی سے اپنی ایک ملاقات پر تاثراتی تحریر رقم کی تھی جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ ان دونوں شخصیات کا تعلق بھارت سے تھا۔ سلام بن رزاق لکھتے ہیں:

ان(غیاث احمد گدی) سے چوتھی اور آخری بار میں 1978ء میں الہ آباد میں کل ہند افسانہ سیمینار میں ملا۔ اس سیمینار میں بمبئی سے انور قمر بھی میرے ساتھ تھے۔ یہ سمینار غالباً اردو افسانے پر پہلا بڑا سمینار تھا۔ جس میں ڈاکٹر قمر رئیس، جناب شمس الرحمن فاروقی، جوگیندر پال، رام لال، قاضی عبدالستار، کلام حیدری کے علاوہ کئی ہم عصر اور نوجوان افسانہ نگار اور نقاد بھی شریک تھے۔ دو دنوں تک خوب محفلیں رہیں لوگ ایک دوسرے سے جی کھول کر ملے۔ غیاث احمد گدی کو اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیوں کہ وہ زیادہ وقت ہمارے ساتھ ہی گزارتے تھے۔

- Advertisement -

سمینار کے آخری دن منتظمین کی جانب سے ایک ہوٹل میں ڈنر تھا، دو روز کے لگاتار ادبی مباحث اور نکتہ آفرینوں نے سب کو بری طرح تھکا دیا تھا۔ تقریباً سب کا جی چاہتا تھا کہ ڈنر سے پہلے کہیں سے دو گھونٹ مئے اندوہ رُبا کا انتظام ہوجائے تو ذہن و دل کو تراوٹ ملے۔ مگر سب ایک دوسرے کے لحاظ میں خاموش تھے۔ تبھی کسی نے آکر چپکے سے بتایا کہ قریب ہی کہیں ایک دیسی مے خانہ دریافت ہوا ہے جہاں انگلش نہیں دیسی مل جاتی ہے۔ میں انور قمر، شوکت حیات حمید سہروردی اور دو ایک مقامی نوجوان بزرگوں کی نظر بچا کر ڈائننگ ہال سے باہر نکل گئے، جب گدی صاحب کو اس کا علم ہوا تو وہ ڈاکٹر سید محمد عقیل اور کلام حیدری کی نظر بچا کر ہمارے پیچھے پیچھے آگئے۔ سید محمد اشرف بھی ازراہِ سعادت مندی ساتھ تھے۔ جب ہم لوگ اڈے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں شیشہ و ساغر کا دستور نہیں، جامِ سفالین کا چلن ہے۔ آرڈر دیا گیا۔ فوراً مٹی کے کلہڑوں میں مے خانہ ساز آگئی۔ ہم میں سے کوئی بھی عادی بادہ نوش نہیں تھا البتہ کبھی کبھی روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں چکھنے کے سب گناہ گار تھے۔

مٹی کے کلہڑوں میں پینے کا ہمارا پہلا اتفاق تھا اور دورانِ گردشِ جام، غالب کا یہ شعر سب کو مزید ترغیب دلا رہا تھا۔

اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے

گدی صاحب بہت موڈ میں تھے اور خوب چہک رہے تھے۔ اس محفل کو یاد کرتا ہوں تو گدی صاحب کا دمکتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ اس کے بعد گدی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں