جمعہ, مئی 10, 2024
اشتہار

کراچی میں فائرنگ ، مفتی تقی عثمانی قاتلانہ حملےمیں محفوظ رہے

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی: شہر قائد میں مفتی تقی عثمانی کے قافلے پر نا معلوم افراد کے حملے میں مولانا عامر شہاب شدید زخمی ہوگئے، دو افراد جاں بحق ہوئے جبکہ مفتی تقی اس واقعے میں محفوظ رہے۔

تفصیلات کے مطابق یہ اندوہنا ک واقعہ آج کراچی کے علاقے نیپا چورنگی پر نماز جمعہ سے کچھ دیر قبل پیش آیا ۔ جب 2 موٹرسائیکلوں پر سوار 4 ملزمان نے گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی، ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کا کہنا ہے کہ واقعہ ایک ہی مقام پر پیش آیا۔

دوسری جانب انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں ۔ ایک واقعہ نیپا پر جبکہ دوسرا نرسری کے علاقے میں پیش آیا، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہی گروپ کی کارروائی ہوسکتی ہے۔

- Advertisement -

مفتی تقی عثمانی اپنی اہلیہ اور دو پوتوں کے ہمراہ گلشن اقبال میں واقع مسجد بیت المکرم میں نماز جمعہ کا خطبہ دینےکے لیے جارہے تھے کہ یہ سانحہ رونما ہوا۔ سانحے میں مفتی شہاب کے بیٹے مولانا عامر شہاب اللہ شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ ان کے ہمراہ موجود سی ٹی ڈی گارڈ صنوبر خان موقع پر جاں بحق ہوگیا ہے۔

جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے تصدیق کی ہے کہ وہاں دو افراد کولایا گیا۔ صنوبر خان مردہ حالت میں اسپتال لائے گئے جبکہ مولانا عامر کی حالت بھی انتہائی تشویش ناک بتائی ہے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ انہیں متعدد گولیاں لگی ہیں اور جناح اسپتال کے ڈاکٹر انہیں ہر ممکن ٹریٹمنٹ فراہم کررہے ہیں، فی الحال وہ آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر ہیں، تاہم ابھی بھی ان کی حالت خطرے میں ہے۔

دوسری جانب اسی قافلے کی ایک اور گاڑی جس میں مفتی تقی عثمانی موجود تھے ، اس میں موجود گارڈ بھی جاں بحق ہوگیا ہے جبکہ ڈرائیور زخمی ہے۔ ڈرائیور نے زخمی حالت میں ہی گاڑی کو نیشنل اسٹیڈیم کے قریب واقع لیاقت نیشنل اسپتال پہنچایا۔

مفتی تقی عثمانی نے اپنےبیان میں کہا ہے کہ چاروں طرف سے اندھا دھند فائرنگ ہورہی تھی ، لیکن خدا کو ان کی زندگی منظور تھی سو وہ محفوظ رہے۔

پولیس کے مطابق حملے میں نشانہ بننے والی گاڑی جس میں مولانا عامر شہاب اللہ موجود تھے اس کا نمبر اے ٹی ایف 908 ہے اور و ہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے نام پررجسٹرڈ ہے۔ دوسری گاڑی جس میں مفتی تقی خود موجود تھے اس کا نمبر بی کے ای 748 بتایا گیا ہے، یہ گاڑی مفتی محمد تقی عثمانی کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔

فرقہ واریت کی سازش نہیں لگتی، اے آئی جی کراچی

اس معاملے پر پولیس کے اعلیٰ حکام ایک دوسرے کے بیانات کی نفی کرتے ہوئے نظر آئے ۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط ہے کہ دو واقعات ہوئے، ایک ہی واقعے میں 2 گاڑیاں نشانہ بنیں۔

انہوں نے کہا کہ دو موٹر سائیکلوں پر 4 دہشت گرد سوار تھے۔ مولانا تقی عثمانی کا ڈرائیور سرفراز بھی شدید زخمی ہے۔ فرقہ واریت کی سازش نہیں لگتی البتہ اس کا مقصد امن کو سبوتاژ کرنا ہوسکتا ہے۔ایڈیشنل آئی جی نے بھی بتایا کہ نائن ایم ایم کے 15 خول ملے ہیں۔ ’ہم تمام اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘۔

واقعہ فرقہ وارانہ دہشت گردی لگتا ہے، انچارج سی ٹی ڈی

دوسری جانب سی ٹی ڈی کے انچارج عمر خطاب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے 2 واقعات ہوئے، ایک واقعہ نیپا اور دوسرا نرسری کے قریب ہوا۔ نیپا چورنگی واقعے میں سیکیورٹی گارڈ صنوبر خان جاں بحق ہوا جبکہ نرسری والے واقعے میں بھی ایک گارڈ جاں بحق ہوا۔

راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ مولانا عامر شہاب کی حالت تشویش ناک ہے، دونوں واقعات میں ٹیمیں الگ الگ تاہم گروپ ایک ہی ہے۔ پولیس نے نیپا کے قریب سے گولیوں کے 9 سے 10 خول جمع کرلیے۔انہوں نے کہا کہ واقعہ فرقہ وارانہ دہشت گردی لگتا ہے۔

وزیر اعظم کی مذمت

وزیراعظم عمران خان نے معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پرفائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے ان کےسیکیورٹی گارڈز کے جاں بحق ہونے پر دکھ کا اظہا رکیا ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ مفتی تقی عثمانی جیسےجیدعالم دین ملک اورعالم اسلام کا اثاثہ ہیں۔ صوبائی حکومتیں علمائےکرام کی سیکیورٹی یقینی بنائیں اور واقعے کے ذمہ داروں کو جلد از جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے۔

سندھ حکومت حرکت میں

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام سےواقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے واقعے میں ملوث کرداروں کو جلد ازجلد کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت کردی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مساجد اور علمائے کرام کی سیکیورٹی بڑھانے کی بھی ہدایت کی ہے۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئر میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کراچی میں پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد دہشتگردوں سے برداشت نہ ہوا،واقعے میں ملوث ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔حکومت سندھ امن و امان کے خلاف سازش کو آہنی ہاتھوں سے روکے۔کراچی میں امن کے لیے دی گئیں جانوں کی قربانیاں رائیگاں جانے نہیں دیں گے۔

مفتی تقی کے بھتیجے کا بیان

مفتی تقی عثمانی کے بھتیجے سعود عثمانی کا کہنا ہے کہ اللہ کاشکرہے کہ مفتی تقی عثمانی حملےمیں محفوظ رہے۔فائرنگ سےمفتی صاحب کامحافظ شہیدہوگیا،ڈرائیورزخمی ہے،ڈرائیورزخمی حالت گاڑی اس جگہ سےنکالنے میں کامیاب رہا۔گاڑی میں مفتی تقی عثمانی،ان کی اہلیہ اورپوتےپوتیاں موجودتھے۔شیشےکےٹکڑوں سے بچوں کو معمولی زخم آئے ہیں۔

مفتی تقی عثمانی کون ہیں؟

مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔آپ 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمیٰ پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔

آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثیت مشیر کام کر رہے ہیں۔

مفتی محمد تقی احمد عثمانی 27 اکتوبر 1943ء کو ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں پیدا ہوئے۔ آپ تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔

آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دار العلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔

بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں