جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

مارکیز: شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

مارکیز نے ”طلسمی حقیقت نگاری“ کی اصطلاح سے اتفاق نہ کیا، جب کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ اصطلاح انہی کے لیے وضع کی گئی تھی۔ مارکیز اپنی تحریروں کو حقیقت نگاری کہتے تھے۔

عصرِ حاضر کے سب سے بڑے ناول نگار کا درجہ رکھنے والے مارکیز نوبیل انعام یافتہ ادیب تھے۔ ان کے شہرۂ آفاق ناولوں میں ’تنہائی کے سو سال‘ اور ’وبا کے دنوں میں محبت‘ شامل ہے۔ آج مارکیز کا یومِ وفات ہے۔

گیبریئل گارشیا مارکیز اپنے عہد میں سب سے بڑے اور قارئین کے محبوب فکشن نگار بھی کہلائے۔ 2014 میں مارکیز 87 برس کی عمر میں‌ آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ انھیں ان کے احباب اور مداح گابو کے نام سے بھی پکارتے تھے۔

- Advertisement -

مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا، جب ان کی عمر لگ بھگ 55 برس تھی۔ گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ ان کی تخلیقات کا قاری ماضی، حال اور مستقبل کو ان تحریروں میں ایک ساتھ دیکھتا تھا۔ وہ واقعات کو طلمساتی انداز میں یوں گوندھتے تھے کہ قاری خود کو ان میں‌ گرفتار پاتا۔ مارکیز کے تخلیقی کام کی ایک خوبی یہ تھی وہ کسی مغربی ادیب یا مغربی روایت کے نقال نہیں بنے بلکہ اپنے حالات، مقامی کرداروں اور محسوسات، تجربات ہی کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ انھوں نے محبّت جیسے قدیم اور لافانی جذبے، خاندان اور آمریت کی دل موہ لینے والے واقعات کو کہانی میں پیش کیا۔ ان کے انوکھے موضوعات، کردار نگاری کا مخصوص انداز اور واقعات کی طلسماتی بنت نے انھیں ہم عصروں کے مقابلے میں ازحد مقبول بنا دیا۔ کارسیا مارکیز کی تقریباً تمام تحریریں اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔

گابو دنیا کے مشہور ترین لاطینی امریکی ناول نگاروں میں سے ایک اور ادبی تحریک کے روح رواں تھے۔ وہ کیوبا کے مشہور راہ نما فیدل کاسترو کے قریبی دوست بھی تھے۔ مارکیز کے مشہور ناولوں کے نام یہ ہیں۔

(1967) One Hundred Year of Solitude
(1975) The Autum of the Patriarch
(1985) Love in the Time of Cholera
(2002) Living to Tell the Tale

1927ء میں مارکیز نے کولمبیا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کیمسٹ تھے اور بیٹے کی پیدائش کے بعد انھوں نے بغرضِ کاروبار اپنا قصبہ چھوڑ دیا اور بڑے شہر میں منتقل ہوگئے۔ وہاں مارکیز کے ریٹائرڈ کرنل دادا، دادی اور آنٹی رہتی تھیں جن کے زیرِ سایہ مارکیز نے تربیت پائی۔ وہ گھر میں ان بزرگوں سے مختلف قصّے اور پراسرار کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔ ان کے یہ بڑے بہت اچھے قصّہ گو تھے اور ان کے ساتھ مارکیز کو تفریح اور گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملتا تھا۔ مارکیز دراصل ہسپانوی آباد کاروں، مقامی آبادی اور سیاہ فاموں کی غلامی کے ورثے میں پروان چڑھے تھے۔ مارکیز نے گریجویشن کے بعد قانون کی تعلیم بھی حاصل کی، اور ناول نگاری کا آغاز 1961 میں کیا۔ اس وقت وہ کولمبیا سے میکسکو سٹی منتقل ہوچکے تھے۔ اس دور میں مارکیز نے سخت مالی مشکلات اور کئی مسائل کا بھی سامنا کیا، لیکن ان کا قلم محبّت کی حدت اور حالات کی شدّت کے ساتھ تیزی سے کہانیاں بُننے لگا تھا اور وہ اپنے مسائل سے نمٹتے ہوئے مسلسل لکھتے رہے۔ بالآخر انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی اور مارکیز نوبیل انعام سے بھی نوازے گئے۔

عالمی شہرت یافتہ مارکیز ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے بھی منسلک رہے۔ وہ اسے دنیا کا سب سے خوب صورت پیشہ گردانتے تھے۔ ان کی پہلی ملازمت بھی ایک اخبار میں تھی جس نے 1947 میں ان کی پہلی مختصر کہانی شائع کی۔ اس وقت ان کے قلم سے نکلا ہوا ایک آرٹیکل فوجی حکام کا پسند نہ آیا اور تب مارکیز کو اپنا وطن چھوڑ کر یورپ جانا پڑا۔ وہ جنیوا، روم اور پیرس میں رہے اور اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔

اس عظیم ناول نگار نے 23 برس کی عمر میں اپنا پہلا ناول لکھا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے ملک میں جاری جنگ و جدل، بدامنی اور بے چینی کے ساتھ محبّت کے جذبے اور دوسرے واقعات کو اپنی کہانیوں میں سموتے رہے۔ ان کی کہانیوں کے بیشتر کردار خاندان اور شہر کے وہ لوگ تھے جن کی زندگیوں کو مارکیز نے قریب سے دیکھا اور ان کا مشاہدہ کیا تھا۔

میکسیکو میں‌ مارکیز کی موت کی اطلاع نے فضا کو سوگوار کردیا تھا۔ لوگ ان کو بہت چاہتے تھے۔ مداحوں کی بڑی تعداد نے مارکیز کا آخری دیدار کیا دنیا بھر سے اہلِ علم شخصیات، قلم کاروں اور مشہور لوگوں نے تعزیتی پیغامات کے ساتھ انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں