بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

ساحل پر لنگر انداز تیل بردار جہاز سے متعلق انکشاف

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی: مختلف اداروں پر مشتمل پورٹس اینڈ شپنگ کی تحقیقاتی کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر لنگر انداز تیل بردار جہاز کی خرید و فروخت میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جہاز سے متعلق انٹرپول تک کی معلومات درست نہیں تھیں۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق گڈانی پر لنگر انداز تیل بردار جہاز سے متعلق کمیٹی کی تحقیقات حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہیں، کمیٹی نے جہاز بیچنے اور خریدنے والے دونوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ جہاز کی خرید و فروخت میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے، سلج میں مرکری کا لیول خطرناک حد سے بھی زیادہ ہے، مرکری کی سطح پی سی ایس آئی آر کی رپورٹ سے واضح ہوئی۔

- Advertisement -

حکام کے مطابق سلج میں موجود مرکری کے لیول کے بارے میں بھی رپورٹ موصول ہو چکی ہے، مرکری ملا سلج پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا۔

حکام نے انکشاف کیا ہے کہ جہاز میں ملے سلج کے بارے میں انٹر پول کی معلومات درست نہیں ہیں، انٹرپول نے جہاز میں 1500 ٹن سلج ہونے کا بتایا تھا، جب کہ جہاز میں 1500 ٹن نہیں بلکہ صرف 50 ٹن کے قریب سلج ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ جہاز بیچنے والے کے خلاف کارروائی کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا اور جلد تحقیقاتی رپورٹ انھیں ارسال کی جائے گی جس پر کارروائی کا امکان ہے۔

یہ تحقیقات ڈی جی پورٹس اینڈ شپنگ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے کی ہے، اس کمیٹی میں وزارت دفاع، ایم ایس اے اور ایف آئی اے حکام شامل تھے، کمیٹی میں انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) بلوچستان اور کلائیمٹ چینج کے نمائندے بھی شامل تھے۔

واضح رہے کہ انٹرپول کے مطابق مذکورہ جہاز کو بھارت اور بنگلادیش میں لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، جس کے بعد اپریل کے آخری ہفتے میں اس کا نام تبدیل کر کے اس کا رخ بلوچستان کے ساحلی علاقے کی طرف موڑا گیا۔

نمائندہ اے آر وائی نیوز کے مطابق انٹرپول نے انتہائی مضرِ صحت کیمیکل سے لدے جہاز سے متعلق پاکستانی حکام کو 22 اپریل کو آگاہ کیا تھا، انٹرپول کی وارننگ کے باوجود بلوچستان کے ساحل گڈانی کے شپ یارڈ پر انتہائی مضرِ صحت کیمیکل سے بھرے بحری جہاز کو اس کے کپتان نے 30 اپریل کو دھوکا دہی سے لنگر انداز کیا گیا۔

بعد ازاں، بلوچستان کی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی نے جہاز سے کیمیکل کے نمونے حاصل کر کے انھیں ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھیج دیا تھا، اور این او سی بھی جاری نہیں کیا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں