ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

جارج آوریل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور نقّاد

اشتہار

حیرت انگیز

جارج آرویل وہ قلمی نام ہے جس نے ایرک آرتھر بلیئر کو بالخصوص ہندوستان بھر میں ایک ناول نگار، نقّاد اور صحافی کے طور پر شہرت دی۔ جارج آرویل متحدہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ پیدا ہوئے جہاں ان کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے۔ لیکن ایک سال کی عمر میں‌ جارج آرویل اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان چلے گئے اور کبھی ہندوستان نہیں‌ لوٹے۔ برسوں بعد ہندوستان میں ان کی تحریریں ان کے قلمی نام سے لوگوں نے پڑھیں اور ان کی کتابوں کے تراجم مشہور ہوئے۔

جارج آرویل کا سنہ پیدائش 1903ء ہے۔ جارج آرویل ایک بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جس نے کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔ یہ سب انھوں‌ نے اپنے قلم کے زور پر کتابوں میں محفوظ کردیا جو ان کی قابلِ‌ ذکر تصانیف ہیں۔ جارج آرویل عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی سروس سے بھی منسلک رہے اور اسی زمانے میں وہ دوسرے اخباروں کے لیے بھی تحریریں قلمی نام سے لکھتے رہے۔ انھیں ایک ایسا قلم کار کہا جاسکتا ہے جس نے اس زمانے کی سیاست اور ثقافت کی نیرنگیوں‌ پر طنزیہ اور عقل و دانش سے آراستہ تبصرے کیے یا ان پر تحریریں سپردِ قلم کیں۔

1933ء سے 1939ء کے درمیان جارج آرویل کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، اور چھے سال بعد 1945ء میں ایک سیاسی تمثیل پر مبنی ناول ”اینیمل فارم“ دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ برطانوی مصنّف جارج آرویل کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ اینیمل فارم میں مصنّف نے ایک فارم اور جانوروں کی منظر کشی کرتے ہوئے ان پر ظلم اور مالکان کی جانب سے استحصال کا نقشہ کھینچا ہے، جس سے بیزار ہو کر جانور اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس کے بعد فارم پر ان کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ اس ناول کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی اور دنیا کی مختلف زبانوں‌ بشمول اردو اس ناول کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

- Advertisement -

نوبل انعام یافتہ ناول نگار جارج آرویل اپنے شہرۂ آفاق ناول ’اینیمل فارم‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس کا اطلاق روس پر ہوتا ہے، لیکن اس کا اطلاق کہیں بڑے پیمانے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔

جارج آرویل نے 1949ء میں اپنے ناول بنام ”1984“ میں ایک تصوّراتی دنیا کو پیش کیا اور یہ ناول بھی شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔ آرویل نے اس ناول میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہین رکھ سکتے جو حکومت کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ کتاب میں‌ جنگِ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں لکھی گئی تھی جب یورپ مکمل تباہ ہو چکا تھا۔ برطانوی قوم بھوک اور افلاس میں گِھر چکی تھی اور مستقبل بھی تاریک دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن انگریز ناول نگار جارج آرویل کی خوبی یہ ہے انھوں نے ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کا سبق بھی دیا ہے۔ آرویل کو اس بات کا اندازہ بخوبی ہو گیا تھا کہ جابرانہ حکومتوں کو ہمیشہ کسی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ناول میں انھوں نے دکھایا ہے کہ کس طرح عوامی جذبات کو استعمال کر کے پراپیگنڈہ کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق نئے دشمن گھڑے جا سکتے ہیں۔

جارج آرویل 21 جنوری 1950ء کو وفات پاگئے تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں