تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

Gone with the Wind کی ریلیز میں دو سال تاخیر کیوں‌ ہوئی؟

1939ء میں ہالی وڈ کی فلم Gone with the Wind (گون وِد دا وِنڈ) ریلیز ہوئی جس نے شائقین اور ناقدین سبھی کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اس فلم نے مختلف زمروں‌ میں اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے کا ریکارڈ بنایا اور شان دار آرٹ فلم قرار پائی۔ اسے ہالی وڈ میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

ہدایت کار وکٹر فلیمنگ کی یہ شاہ کار بعد میں آنے والوں کے لیے مثال بنی جس کا سبب ان کی محنت اور کسی موقع پر سمجھوتا نہ کرنا تھا۔ اس کی تفصیل میں‌ جانے سے پہلے جان لیں‌ کہ فلم میں مرکزی کردار کس نے نبھایا۔ کلارک گیبل اور ویوین لیہہ وہ اداکار ہیں‌ جنھوں نے اپنی پرفارمنس سے اس کہانی میں‌ رنگ بھردیے، جب کہ لیزلی ہارورڈ اور اولیویا نے بھی مرکزی کردار نبھاتے ہوئے شان دار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور شائقین کی توجہ کا مرکز بنے۔

اس فلم کی کہانی ایک ایسی بُری عورت کے گرد گھومتی ہے جو مختلف حالات کا سامنا کرتی ہے اور پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، تب وہ ایک وفادار بیوی بن جاتی ہے۔ یہ رومان پرور کہانی مارگریٹ مِچل کے ناول سے ماخوذ تھی۔ یہ ناول 1936 میں‌ منظرِ‌عام پر آیا تھا۔

اس فلم میں‌ رومانس کے ساتھ انسانی نفسیات کے پہلوؤں کو نہایت خوب صورتی کے عکس بند کیا گیا تھا جسے ناقدین اس فلم کی بڑی خصوصیت قرار دیتے ہیں۔

اہم اور دل چسپ بات یہ ہے کہ فلم کے ڈائریکٹر نے اس کے اسکرپٹ پر کوئی سمجھوتا نہیں‌ کیا اور فلم کی کہانی متعدد بار لکھوائی گئی۔ کہانی کاروں‌ میں‌ سڈنی ہاورڈ ، جوسوارلنگ اور ربین ہیچ شامل تھے۔ انھوں نے ڈائریکٹر کے کہنے پر کئی بار اسکرپٹ میں‌ ترامیم کیں۔

آرٹ ڈیزائنر ولیم کیمرون نے بھی اس فلم کے لیے بہت محنت کی تھی جسے بہت سراہا گیا اور انھوں‌ نے اکیڈمی ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ اس فلم کی تکمیل میں‌ دو سال کی تاخیر بھی ہوئی جس کا سبب کرداروں اور اسکرپٹ کے حوالے سے ڈائریکٹر کا مطمئن نہ ہونا تھا۔

مارگریٹ مِچل کا ناول بھی جس سے اس فلم کی کہانی ماخوذ تھی، 1936ء میں‌ اپنی اشاعت کے بعد خاصا مقبول ہوا۔ مارگریٹ مِچل کا تعلق امریکا سے تھا جہاں‌ وہ صحافت سے منسلک تھیں۔ یہ ناول ان کی واحد ادبی تخلیق تھی جس پر انھیں‌ اس سال نیشنل بک ایوارڈ دیا گیا اور اگلے برس پلٹزر پرائز کی حق دار قرار پائیں۔

فلم کی بات کی جائے تو اسے زبردست کام یابی ملی اور متعدد زمروں میں‌ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئی۔ شان دار فلم، بہترین اداکارہ اور معاون اداکارہ، بہترین ڈائریکٹر، بیسٹ آرٹ ڈائریکشن اور ایڈٹنگ کے اعزازات اس فلم نے اپنے نام کیے۔

Comments

- Advertisement -