تازہ ترین

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

دیوانے تو بہت ہیں پرجالب کوئی نہیں

اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب کی آج 26 ویں برسی منائی جارہی ہے‘ ان کی بیٹی طاہرہ جالب نے اس موقع پرکہا کہ آج بھی مسائل وہی ہیں لیکن آج کوئی جالب نہیں ہے۔

حبیب جالب کو شاعرِعوام اورشاعرِانقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ انہوں نے ساری زندگی حکمرانوں اور کے عوام دشمن فیصلوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزاری اوراسی جدوجہد میں اپنی زندگی کے بارہ قیمتی سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیئے۔

آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِخرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔

آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ نظم کرنے پرہوئی۔ آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اورنشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔

جالب نے زندگی کے بارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیے‘ حوالات تو ان کا آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔جب کوئی نیا افسرآتا تو کہتا تھا کہ باغی جالب کی فائل لے آؤ۔

جالب غربت کے ماحول میں جیے اور غریب کے عالم میں ہی دنیا سے گزر گئے لیکن اردو کے دامن میں مظاہمتی شاعری کا اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑگئے کہ جب بھی اردو بولنے والے نظام کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کریں گے تو رجز میں جالب کے اشعار ہی پڑھے جائیں گے۔

ان کا انتقال 13 مارچ 1993 کو لاہور میں ہوا، ویکی پیڈیا پر ان کی تاریخ وفات غلط درج ہونے کے سبب بہت سے ادارے ان کی برسی 12 مارچ کو مناتے ہیں ۔

ان کی بیٹی طاہرہ جالب اپنے والد کے مشن سے بے پناہ متاثر ہیں اور اسے آگے بڑھانے کے لیےکوشاں ہیں۔اے آروائی نیوز نے ان کی برسی کے موقع پر ان کی بیٹی ’طاہرہ جالب ‘ کا خصوصی انٹرویو کیا جس میں وہ اپنے والد کی جدوجہد اوراپنے اوران کے رشتے کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہارکررہی ہیں۔

طاہرہ جالب سے خصوصی گفتگو

اے آروائی نیوز: اپنے اورحبیب جالب کے رشتے کے بارے میں بتائیے‘ بحیثیت باپ آپ نے انہیں کیسا پایا؟۔

طاہرہ جالب: پہلا سوال ہی انتہائی مشکل ہے‘ ایک باپ اور بیٹی کے رشتے کو کبھی بھی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آج مجھے جو بھی عزت‘ شرف اورمحبتیں ملتی ہیں یہ سب ان کے تعلق سے ہیں۔ ان کی ساری زندگی انتہائی مصروف گزری اور ہمارے پاس مستقل طورپروہ عمر کے ان دنوں میں آئے جب ان کی طبعیت انتہائی ناساز رہنے لگی تھی۔ اس وقت میں ان کے سارے کام میں بہت شوق سے کیا کرتی تھی‘ انہیں نہلانا‘ ان کے بالوں میں کنگا کرنا۔ انہیں شدید ناگوار گزرتا تھا کہ میں انہیں جوتی پہناؤں لیکن علالت کے سبب انہیں یہ برداشت کرنا پڑا جب کہ میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔

اے آروائی نیوز: جالب نے ہتھکڑی نامی ایک نظم لکھی تھی اس کا پسِ منظر بتائیے؟

طاہرہ جالب: انہوں نے یہ نظم ہماری بڑی بہن جمیلہ نورافشاں کو مخاطب کرکے لکھی تھی اور باپ بیٹی کے وہ جذبات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہماری وہ بہن اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔

اے آروائی نیوز: جالب کئی شہروں میں مقیم رہے‘ کراچی اور لاہور میں زندگی کیسی گزری؟

طاہرہ جالب: میری پیدائش تو خیر لاہور کی ہے‘ جالب صاحب تقسیم کے بعد کراچی آئے تو ان کے بڑے بھائی مشتاق حسین مبارک جو کہ محکمہ اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر تھے۔ کراچی میں جیکب لائن میں انہیں کوارٹر ملا ہوا تھا۔ جالب صاحب انہی کے دفتر میں پیون کی حیثیت سے کام کرتے تھے ‘ وہ انتہائی مشکل دور تھا۔ تایا کے اپنے پانچ بچے تھے اورپھر ہم لوگ بھی انہی کے ساتھ اس کوارٹر میں رہا کرتے تھے۔ لاہور آئے تو یہاں پہلے سنت نگر میں رہے تو وہاں بھی مشکلات درپیش رہیں الغرض آرام دہ زندگی کبھی نہیں گزری۔

اے آر وائی نیوز: جالب صاحب جن دنوں جیل میں ہوا کرتے تھے تو ان مشکل ایام میں کون لوگ ساتھ دیا کرتے تھے؟

طاہرہ جالب: ابو نے کُل 12 سال کا عرصہ جیل میں گزارا ہے اور سب سے طویل وقت جو ان کا جیل میں گزرا وہ ضیا الحق کے دور کا تھا جب انہوں نے پونے دو سال جیل میں گزارے۔ اس عرصے میں ان کے جیل سے پیغامات اپنے دوستوں کے نام ‘ محلے کے دوکانداروں کےنام آتے تھے کہ میرے گھر والوں کا خیال رکھنا انہیں راشن وغیرہ کی کمی نہ ہو‘ میں باہر آتے ہی قرضہ ادا کردوں گا تو یہ سارے لوگ بہت خیال رکھتے تھے۔

اس کے علاوہ جن نامور لوگوں نے ان مشکل اوقات میں ہماری مدد کی ان میں کشور ناہید آنٹی کو میں کبھی نہیں بھول سکتی‘ احسان صاحب تھے‘ منٹو انکل کی طرف سے پیغامات آتے رہتے تھے اور وہ مالی مدد بھی کردیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ اعتزاز احسن بھی اکثرآیا کرتے تھے اورجب جالب صاحب رہا ہوجاتے تو یہی سارے افراد ہمارے ڈیڑھ کمرے کے کچے گھر میں جمع رہتے اور ہمارے ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھاتے پیتے تھے۔

اے آروائی نیوز: کہتے ہیں کہ ایک کامیاب شخص کی پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘ کیا بیگم ممتاز جالب وہ خاتون ہیں جنہوں نے جالب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا؟

طاہرہ جالب: جی! یقیناً ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام مرد کے پیچھے عورتوں کا لیکن جالب کا معاملہ الگ ہے ان کی کامیابی کے پیچھے تین خواتین کا ہاتھ ہے۔

سب سے پہلے تو میری دادی اور جالب صاحب کی والدہ رابعہ بصری جن کی تربیت نے جالب کو حق گوئی کا عادی بنایا اور اتنا بے باک بنایا کہ مصائب کا سامنا کرکے بھی کلمۂ حق نہ چھوڑا جائے۔

دوسری جالب کی بہن اور میری پھوپی رشیدہ بیگم کہ جن کی محنت کے سبب جالب کا پہلا مجموعہ کلام برگِ آوارہ ممکن ہوا ورنہ جالب خود اس قدر لاپرواہ تھے کہ اپنا کلام کاغذ کے ٹکڑوں اور سگریٹ کے ڈبوں پر لکھ کر ادھر ادھر رکھ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اس سب کلام کو سنبھال کر رکھا اور جالب کو فکری تحریک بھی دیتی رہیں۔

بیگم ممتازجالب کا کردار

اور اب بات کرتے ہیں میری والدہ بیگم ممتاز جالب کی‘ یقیناً ان کا بہت بڑا کردار ہے اور میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہی کہ وہ میری ماں ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں بہت ایثار کیا۔ جالب کبھی بھی کسی بھی ایسے موقع پر موجود نہیں ہوتے تھے جب ایک بیوی کو اپنے شوہر کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے خصوصاً بچوں کی پیدائش کے موقع پر بھی۔ لیکن انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا اور والد کو کبھی روز مرہ کی ضروریات کمانے کے لیے مجبورکیا بلکہ ہمیشہ اپنے پھٹے کپڑوں اور تنگی پر راضی رہیں اور ہمیں بھی یہی تربیت دی۔

یقین کریں کہ والد کی وفات کے بعد اگر کسی موقع پر ہم نے حکومت کی جانب سے کوئی امداد حالات کے تقاضے کے تحت قبول کی تو ہمارے گھرمیں لڑائی ہوجاتی تھی اوروالدہ یہی کہا کرتی تھیں کہ ’یہ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا جالب ہوتے تو وہ کبھی نہیں لیتے‘۔

اےآروائی نیوز: کیا آج بھی عوام کو بیدار کرنے والی جالب کی شاعری کے اثرات موجود ہیں؟

طاہرہ جالب: دیکھیں! صورتحال ایسی ہے کہ سب اچھے بھی نہیں اور سب برے بھی نہیں۔ میں جالب کی بیٹی ہوں مجھے ورثے میں ملا ہے کہ میں کسی بھی طور آمریت کو قبول نہیں کرسکتی۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ جمہوری دور ہو یا آمرانہ ‘ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے رولز اینڈ ریگولیشن آتے تھے اور جالب ان کے خلاف بغاوت کرتے تھے۔ آج بھی جمہوری دور ہے اور ایسے قوانین آتے ہیں لیکن اب کوئی ساغر نہیں‘ کوئی ساحرنہیں اورنہ ہی کوئی جالب ہے کہ جو بغاوت کا علم بلند کرے‘ آج عوام کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔

اے آروائی نیوز: برسرِاقتدار حلقے جب جالب کی نظمیں پڑھتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟

طاہرہ جالب: ہنستے ہوئے! دیکھے اب اگرکوئی جالب کو پسند کرتا ہے اوران کا کلام پڑھتا ہے تو میں اسے روک نہیں سکتی لیکن مجھے اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ جالب کا کلام پڑھ کر حکمراں طبقے ان کی روح کو کچوکے لگاتے ہیں‘ کیونکہ جالب جن محلات کے خلاف تھے وہ انہیں حکمرانوں کے ہیں۔ انہوں نے پرائیویٹائزیشن کے نام پر مزدور کے منہ سے روٹی چھینی ہے‘ کیا وہ جانتے ہیں کہ محنت کش کے پسینے میں گندھی روٹی کاذائقہ کیسا ہے؟ نہیں نہ تو پھر انہیں جالب کا کلام نہیں پڑھنا چاہیے۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں