ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

حکیم محمد سعید: ایک جوہرِ قابل جسے ہم نے گنوا دیا

اشتہار

حیرت انگیز

حکیم محمد سعید نے وطنِ عزیز میں مستقبل کے معماروں کی تربیت، راہ نمائی اور کردار سازی کو اپنا فرض جانا اور اس کے لیے دن رات محنت کی اور ’’ہمدرد نونہال‘‘ کے اجراء کے علاوہ مختلف ادارے قائم کیے۔ بدقسمتی سے 1998ء میں کراچی میں‌ دہشت گردی کے عفریت نے اس شجرِ سایہ دار کو نگل لیا۔ 17 اکتوبر کو حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا۔

پاکستان کے نام وَر طبیب اور ادویّہ سازی کے مستند اور مشہور ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ اور نونہال جیسے بچّوں‌ کے مقبول رسالے کے بانی حکیم محمد سعید گورنر سندھ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

انھوں نے 9 جنوری 1920ء کو دلّی میں آنکھ کھولی، حکیم سعید طبِ مشرق سے وابستہ گھرانے کے فرد تھے۔ ان کے والد نے 1906ء میں دلّی میں طب و حکمت کا ادارہ ’ہمدرد دواخانہ‘ قائم کیا تھا۔ حکیم سعید نے ابتدائی تعلیم کے دوران عربی، فارسی، اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور 18 برس کی عمر میں دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ انھوں نے فارمیسی میں گریجویشن اور علم الادویّہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942ء میں اپنا خاندانی کام سنبھالا اور ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوگئے۔

- Advertisement -

1945ء میں انھوں نے فارمیسی میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ اسی برس ان کی شادی نعمت بیگم سے ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید اپنے کنبے کے ساتھ کراچی چلے آئے اور یہاں ’ہمدرد پاکستان‘ کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے 1952ء میں انقرہ یونیورسٹی، ترکی سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی اور وطن واپس آکر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر آف فارمیسی کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں وہ مستعفی ہو گئے۔

ان کے قائم کردہ ادارے کے زیرِ اہتمام 1985ء میں یونیورسٹی قائم کی گئی جس کے وہ پہلے چانسلر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے مدینۃُ الحکمت کی بنیاد رکھی۔ طبّ و حکمت کے ساتھ وہ ان تعلیمی اداروں کے معاملات دیکھتے ہوئے علم و ادب سے بھی وابستہ رہے۔ انھوں نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں طب و حکمت سے متعلق تعلیمی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لیا اور پروگراموں میں‌ شرکت کرتے رہے۔ حکیم سعید اردو اور انگریزی کی دو سو کے قریب کتابوں کے مصنّف تھے جب کہ نونہال بچّوں کا وہ مقبول رسالہ تھا جس کے بانی حکیم سعید نے بلاشبہ دو نسلوں کو نہ صرف لکھنا پڑھنا سکھایا، بلکہ ان کو غور و فکر کی عادت ڈالی، دین و دنیا کی تعلیم کا ذوق و شوق پروان چڑھایا، اخلاق و آدابِ معاشرت سکھائے اور اس رسالے نے ادبِ‌ اطفال کے ساتھ اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

ان کی بیٹی سعدیہ راشد کے ایک انٹرویو سے ماخوذ یہ پارہ ہمیں حکیم سعید کے معمولات اور ان کی شخصیت کو سمجھنے میں‌ مدد دیتا ہے، وہ لکھتی ہیں:

"شروع میں ابّا جان (حکیم محمد سعید) کا غصہ بہت تیز تھا۔ سب ان سے ڈرتے تھے کہ وہ ناراض نہ ہوں، لیکن برہمی میں وہ ڈانٹتے ڈپٹتے نہیں تھے۔

میں نے دفتر میں انھیں کبھی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غصے میں ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ خاموش ہو جاتے۔ جب وہ خاموش ہو جاتے، تو سب خاموش ہو جاتے، لیکن یہ صحیح نہ تھا۔ میڈم ڈی سلوا ان کے مزاج کو سمجھ گئی تھیں وہ بولتی رہتی تھیں۔ بولتے رہنے سے ابّا جان کا غصہ جلدی اتر جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ ابّا جان کا غصہ کم ہوتا گیا، وہ آخر میں تو بہت نرم ہوگئے تھے۔ میڈم کہتی تھیں ”وہ ایک چیتے کی طرح تھے، لیکن اب ایک معصوم بلّی کی طرح ہو گئے ہیں۔“

ابّا جان کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد کے تھے، وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے، تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کام یابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ ایک طرف ادارہ ’ہمدرد‘ کی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طبِ یونانی جسے ابّا جان کہتے تھے کہ یہ طبِّ اسلامی ہے۔ اس کا دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں۔ یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جاں فشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی، وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل لیتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر تک نہ کرتے، لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔

آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے اب اپنی نیند ایک گھنٹے اور کم کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے کریں گے۔ چار گھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر آپ کام کس طرح کریں گے۔ وہ کہنے لگے ’نہیں مجھے کام بہت ہے۔ مجھے اپنی نیند ایک گھنٹے کم کرنی ہی پڑے گی۔ میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی۔ وہ مشن کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے، وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا۔ برملا اظہار کر دیا۔

وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو اپنے خیالات اپنے احساسات سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے، جو چھپا رہ گیا۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے۔ جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا کہ لو پڑھ لو، جان لو اور پرکھ لو۔”

حکومتِ پاکستان نے حکیم سعید کو 1966ء میں ’ستارۂ امتیاز‘ اور بعد از مرگ ’نشانِ امتیاز‘ سے نوازا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں