اشتہار

‘ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی قرار دینے پر شادیانے، اب دھمکیاں دی جارہی ہیں ‘

اشتہار

حیرت انگیز

ماہر قانون داں حامد خان نے کہا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے بنچ نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی قرار دی تو شادیانے بجائے گئے، اب جب آپ کی رولنگ ہیں تو عدلیہ کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق پی ٹی آئی رہنما اور ماہر قانون داں حامد خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے زیراہتمام "برداشت معاشرے کی بقاء اور عدم برداشت معاشرے کی تباہی ہے” کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے بنچ نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی قرار دی تو شادیانے بجائے گئے، اب جب آپ کی رولنگ ہیں تو عدلیہ کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں رولنگ تب بھی غلط اور آج بھی غلط تھی۔

حامد خان نے مزید کہا کہ وکلا کو سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت کو دباؤ میں لانا اور اپنی مرضی کے فیصلے سننا کسی صورت مناسب نہیں۔ دو فیصلے لینے کے بعد اسی بنچ پر اعتراض ہے کہ فل کورٹ بینچ بناو۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ بارز کے نمائندہ گان اپنی سیاسی اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیے عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔

- Advertisement -

ان کا کہنا تھا کہ سیاست کرنا ہر کسی کا حق ہے مگر بارز سے باہر سیاست کریں۔ اگر کوئی کسی سیاسی جماعت سے منتخب ہوئے ہیں تو بارز میں سیاست کو نہ لائے۔ 3، 5 یا 11 کا بنچ ہو۔ سپریم کورٹ رولز کے تحت یہ چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔

حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کو جو دھمکیاں دی جارہی ہے یہ بالکل غیر مناسب ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے غلط بھی ہو سکتے ہیں اور صحیح بھی۔ ہم سب وکلاء سپریم کورٹ کے ساتھ ہر حال میں کھڑے ہیں اور دھمکیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔

ماہر قانون نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال جو کررہے ہیں وہ غلط ہے کہ مرضی کے ججز کا بنچ بنایا جائے جب کہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد بھی غلط کر رہے تھے۔ قانونی طور پر سپریم کورٹ کے سینئر ججز کا بنچ بنتا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کچھ دنوں میں ریٹائر ہورہے ہیں اور آپ نے پانچ دنوں کے لیے جوڈیشل کمیشن کا ممبر بنا دیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بنچ سے باہر رکھنا غلط ہے۔ ججز کو اپنے اختلافات ایک سائیڈ پر رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کا ممبر بننا ہے مگر بننے نہیں دیا جارہا۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سینیر جج ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نہیں لایا جارہا۔ سینیر ججز کو بائی پاس کرکے جونئیر ججز کو لگانے کے غلط اثرات ہونگے۔

حامد خان نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو کیوں سپریم کورٹ نہیں لیکر جارہے؟ وہ غیر جانبدار اور قابل ترین جج ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ سے ساتواں جج آپ لیں رہے ہیں مگر اسلام آباد ہائی کورٹ سے کوئی جج نہیں یہ آپکا انصاف ہے؟ پشاور ہائی کورٹ سے بھی ایک جج باقی ہے؟

سپریم کورٹ میں ہر ہائی کورٹ اور ہر صوبے کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ انصاف کریں۔ آپ کو انصاف کے لیے بٹھایا گیا ہے۔ ہم صرف اور صرف عدلیہ کی ریفارمز اور سپریم کورٹ میں سینیارٹی پر ججز کی تقرری چاہتے ہیں۔ اگر انصاف کرنے والا اپنے ادارے کے ساتھ انصاف نہیں کرے گا تو کسی اور کے ساتھ کیا انصاف کرے گا۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں