بوسنیا: خانہ جنگی کے دوران تباہ ہونے والی عثمانی دور کی تاریخی مسجد تعمیرِ نو کے بعد لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
تفصیلات کے مطابق بوسنیا میں دوران جنگ تباہ ہونے والی تاریخی مسجد کی تعمیرِ نو مکمل کر کے عوام کے لیے کھولا جا رہا ہے۔ تاریخی مسجد کے دوبارہ کھولے جانے کی تقریب میں ہزاروں مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شرکت کریں گے۔
مسجد کی تعمیرِ نو کومذہبی رواداری کی عمدہ مثال کے طور لیا جارہا ہے۔
بوسنیا میں بسنے والے مسلمانوں، انتہا پسند سرب یہودیوں اور کروشیائی کیتھولک کے درمیان بیس سال تباہ کن جنگ جاری رہی۔نسلی بنیادوں پر تقسیم بوسنیا میں امنِ عامہ کی مکمل بحالی کے لیے حریف گروپوں کے درمیان مفاہمت کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کرنے کی کے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
تقریب میں شرکت کے لیے پورے ملک سے آنے والے مسلمان شرکت کریں گے۔کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے ایک ہزار پولیس اہلکار معمور ہیں۔جبکہ شہر کے مرکز میں ٹریفک سمیت شراب نوشی بھی ممنوع ہے۔
مسجد کے تعمیر نو کے لیے ترکی نے مالی امداد فراہم کی تھی.اس موقع پرترکی کے موجودہ وزیر اعظم نے مسجد کی تعمیر نو کو امن کے پیغام سے تعبیر کیا ہے۔
سرب انتہا پسندوں کی جانب سے علیحدگی کی دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ترک وزیراعظم نے کہا کہ بوسنیا رہنے والے مسلمان، کیتھولک اور یہودی ایک جسم ایک قلب کی مانند ہیں۔اگر کسی نے انہیں تقسیم کرنے کی کوشش کی تو اسے دلوں کی تقسیم سمجھا جائے گا۔
یاد رہے یونیسکو کے زیرِ حفاظت فرح دیجہ مسجد سولویں صدی میں تعمیر ہوئی۔یہ مسجد عثمانی سلطنت کی فنِ تعمیر کی ایک شاندار مثال ہےجسے 23 سال قبل جنگ کے دوران تباہ کردیا گیا تھا۔
مسجد کی تعمیرِ نو کا سنگِ بنیاد 2001 میں رکھا گیا۔سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں میں آنے والے لوگوں پر انتہا پرست سرب کی جانب سے کیے گئے حملوں میں ایک مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
کئی غیر ملکی حلقوں نے الزام لگایا ہے کہ تاریخی مسجد کو بوسنیا کے سرب انتہا پسندوں نے تباہ کیا تھا تاکہ نسلی بنیادوں پر تقسیم اس شہر سے مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹادیا جائے۔
بوسنیا کےصدر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں، کیتھولک عیسائیوں اور یہودی سربوں کے نمائندوں نے اس موقع پر متحد ہوکر امن کا پیغام عام کیا ہے۔