اشتہار

مصنوعی بارش کیسے برسائی جاتی ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

بھات دارلحکومت دہلی میں فضائی آلودگی کے بعد حکام نے وہاں مصنوعی بارشیں برسانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم کیا آپ جانتے ہیں کہ مصنوعی بارش کیسے برسائی جاتی ہے۔

دہلی میں گزشتہ دنوں ہلکی بارش سے گوکہ فضائی آلودگی میں تھوڑی کمی ہوئی ہے مگر ماہرین کے مطابق یہ عارضی راحت ہے آلودگی کی صورت حال فوراً ختم ہونے والی نہیں ہے۔

عام آدمی پارٹی کی حکومت نے دارالحکومت دہلی کے کچھ علاقوں میں مصنوعی برسات کے لیے اقدمات شروع کردیے ہیں۔

- Advertisement -

مصنوعی بارش برسانے کا عمل بھی کافی دلچسپ ہے جس میں پہلے بادلوں کو کیمیکل کے ذریعے بھاری کیا جاتا ہے۔ مصنوعی بارش کلاوڈ سیڈنگ تکنیک کے ذریعے ہوتی ہے۔ خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعہ دو سے چار ہزار فٹ کی بلندی سے بادلوں کے اوپر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں۔

ان کیمیکلز کی وجہ سے بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بنتے ہیں اور بادل بھاری ہوجاتے ہیں اور برسات ہونے لگتی ہے۔ بادل پر کیمیکل ڈالنے کے لیے ہوائی جہاز کی جگہ زمین سے راکٹ یا مخصوص آلات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

ہر بادل مصنوعی بارش کے لیے موزوں نہیں کیوں نہ ہر موسم میں یہ برسات ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے خاص ماحول درکار ہوتا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دس میں سے تین قسم کے بادلوں میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا جاسکتا ہے۔

ایسے بادلوں کو مصنوعی بارش کے لیے استعمال کیا جسکتا ہے جن کی تہہ سات سے دس ہزار فٹ موٹی ہو۔ مصنوعی بارش کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہوا میں رطوبت یعنی نمی 70 سے 75 فیصد ہو اور ہوا کی رفتار 30 سے 50 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو۔

ان سارے عوامل کی موجودگی میں ہی مصنوعی بارش کا تجربہ مکمل طور پر کامیاب ہو سکتا۔ دو امریکی سائنس دانوں ونسنٹ شیفر اور برنارڈ وونیگو نے سن1946 میں پہلی مرتبہ مصنوعی بارش کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے ڈرائی آئس کا استعمال کرکے کامیاب کلاوڈ سیڈنگ کی تھی۔

آج دنیا کے پچاس سے زائد ملکوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں۔ امریکا، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔

مصنوعی بارش کے نقصانات بھی ہیں اس سے گرمی اور حبس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بھارت میں کلاوڈ سیڈنگ کے تجربات 1950کی دہائی سے جاری ہیں لیکن اس پر اب تک کوئی قومی پالیسی نہیں بنی ۔

مصنوعی بارش کرانے سے قبل حکومت کو سپریم کورٹ کی اجازت درکار ہے۔ یوں تو مصنوعی بارش کا طریقہ بظاہر آسان لگتا ہے لیکن اس کے مضر اثرات بھی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ بادلوں کو برسایا تو جا سکتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے ہی رکیں گے۔

دوسری بات اس سے ماحول پر غیر فطری دباؤ بڑھ جاتا ہے، شدید حبس اور گرمی بڑھ سکتی ہے۔ چونکہ اس بارش کے پانی میں کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں اس لیے یہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

دہلی کے وزیر ماحولیات گوپال رائے نے بتایا کہ مصنوعی بارش کرانے کے حوالے سے ہدایات دے دی گئی ہیں جس پر تقریباً 13 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔

انھوں نے کہا کہ بھارت میں انجینیئرنگ کے معروف ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی)، کانپورکے ماہرین کی ایک ٹیم نے مصنوعی بارش کے سلسلے میں تفصیلی تجویز پیش کی تھی۔ سردیوں کے موسم میں مصنوعی بارش نیا تجربہ ہو گا۔

مصنوعی بارش کے لیے آسمان میں کم از کم 40 فیصد بادلوں کا ہونا ضروری ہے۔ وزیر ماحولیات کا کہنا تھا کہ ماہرین موسمیات کے مطابق 20-21 نومبر کو بادل کی مطلوبہ مقدار رہے گی اور ان دنوں میں مصنوعی بارش کرائی جاسکتی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں