اشتہار

اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں!

اشتہار

حیرت انگیز

پچھلے دنوں میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جنہیں ”رنگ برنگی آنکھوں“ کا شوق ہے۔ اگر آپ رنگی برنگی آنکھوں کی اصطلاح پر حیران ہورہے ہیں تو آپ کو اس کی پوری اجازت ہے کیوں کہ میں بھی پہلے اسی طرح حیران ہوئی تھی۔

غالبؔ کی پیش گوئی تو قصّۂ پارینہ ہوئی کہ:

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

- Advertisement -

سائنس نے تو وہ ترقی کی ہے کہ دل و جاں پر کیا منحصر ہے گردہ، پھیپھڑا، آنکھیں، زبان، ہاتھ، پاؤں غرض انسانی جسم کے تمام اعضاء یعنی ”اسپیئر پارٹس“ باآسانی ”بازارِ شفا“ میں دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں، بازار میں خریداروں کے شوق کی تسکین کے لئے ”اسپیئر پارٹس“ کی مختلف ”ورائٹیز“ بھی تیار کی جارہی ہیں۔ تجربے کے طور پر ”بازارِشفا“میں سب سے پہلے آنکھوں کی مختلف ورائٹیز لائی گئی ہیں۔ آنکھوں کو فوقیت دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ ”بازارِ شفا“کے کاری گر یعنی ڈاکٹر صاحبان بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ ”انکھیاں بڑی نعمت ہیں بابا۔“

پہلے اگر کسی کی آنکھوں کے دیے بجھنے لگتے تھے تو ڈاکٹر صاحبان اس کی زندگی کا چراغ گل ہونے سے قبل اس کے دیے کی لو دوسرے دیے سے جوڑ کر اسے پھر سے منّور کردیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسے قرنیہ کی تبدیلی کہتے ہیں۔ یہ قرنیہ کسی مرنے والے کی وصیت کے مطابق اس کی وفات کے فوراً بعد آنکھوں سے نکال لیا جاتا ہے۔

اب ایک چیز اور ایجاد ہوئی ہے۔ نام اس کا ”کنٹیکٹ لینس“ ہے۔ رنگ بھی اس کے کئی ہیں اور خوبی یہ کہ اسے آپ اپنے قرنیے پر لگا دیں، دیکھنے والے کو آپ کی ”ہوشیاری“ کا پتا بھی نہیں چلے گا اور آپ کی آنکھوں کی رنگت بھی بدل جائے گی۔

کنٹیکٹ لینس بغیر رنگ کے بھی ہوتے ہیں۔ چناں چہ ڈاکٹر صاحبان اب صرف قرنیہ کا آپریشن نہیں کرتے بلکہ آپ کی آنکھوں کو آپ کا پسندیدہ رنگ بھی دیتے ہیں۔ آپ کنٹیکٹ لینس لینے کی خواہش کا اظہار کریں تو فوراً دریافت کیا جائے گا۔ ”کس رنگ میں چاہئے؟ نیلا، لال، ہرا، کتھئی ہر رنگ موجود ہے۔“ بالکل اسی طرح جیسے کپڑے کی دکان پر بزاز تھان پھیلا کر کہتا ہے۔”بہن جی، ڈیزائن پسند کر لیں، رنگ اور بھی مل جائیں گے۔ نیلا، پیلا، لال، ہرا، اودا، پانچ ورائٹیز ہیں اس میں۔“

اس لینس کی ایک خوبی اور بھی ہے، یعنی اسے لگانے کے لئے خدانخواستہ کسی کا نابینا ہونا یا اس کی بینائی کا کمزور ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ کی بینائی کمزور ہے تو آپ اپنی آنکھیں ٹیسٹ کرا کے چشمے کی طرح لینس کا نمبر لے لیں ورنہ آپ کے سامنے بغیر نمبر کے تمام رنگ کے لینس رکھے ہیں۔ ”نظرِ انتخاب“ ڈالئے اور کوئی بھی رنگ پسند کرلیجئے۔

میری ملاقات جس خاتون سے ہوئی تھی وہ رنگوں کی میچنگ کے معاملے میں اتنی ”حسّاس“ ہیں کہ لباس، نیل پاش اور لِپ اِسٹک سے لے کر آنکھوں تک سب میچنگ کلر میں چاہتی ہیں۔ اس روز وہ ”بازارِ شفا“ میں رنگ برنگی آنکھوں (لینس) کی خریداری کے سلسلے میں ہی آئی تھیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انہوں نے کس کس رنگ کی آنکھیں خریدیں لیکن اتنا اطمینان ضرور ہے کہ وہ بے ضرر سی خاتونِ خانہ تھیں۔ لہٰذا، ان کے ”آنکھیں بدلنے“ سے کسی کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ گھر والے بھی چند دنوں میں ان کی اس عادت سے بخوبی واقف ہوجائیں گے اور ان کی رنگ بدلتی آنکھوں کی پروا نہیں کریں گے۔

ہم اس بات سے بھی خوف زدہ نہیں ہیں کہ معاشرے کے جرائم پیشہ افراد کنٹیکٹ لینس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے یعنی کوئی چور کالی آنکھوں کے ساتھ چوری کرنے کے بعد نیلی آنکھیں لگا کر مجمع میں شامل ہو کر ”چور چور، لینا، پکڑنا، جانے نہ پائے“ کی صدائیں لگانے لگے گا۔ ظاہر ہے ہم اس سے کیوں خوف زدہ ہوں۔ یہ دردِ سر تو محکمۂ پولیس کا ہے۔ ہم تو صرف ایسے ”عاشقِ صادق“ کے لئے پریشان ہیں جو اپنی محبوبہ کی نیلی آنکھیں دیکھ کر بڑے پیار سے کہے گا۔ ”جان! تمہاری آنکھوں میں جھیل جیسی گہرائی ہے۔ تمہاری نیلگوں آنکھوں میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے۔“ اور اس بات پر محبوبہ بجائے شرمانے کے جھٹ لینس نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گی۔ ”لو ڈوب سکتے ہو تو ڈوب جاؤ، مرو گے تھوڑی۔“

عاشق بے چارہ چکرا کر محبوبہ کی طرف دیکھے گا تو نیلگوں آنکھوں میں ”شبِ دیجور“ کی سیاہی نظر آئے گی۔ یا کبھی کسی محبوبہ کو غصہ آیا اور اس کی اصلی آنکھیں لال پیلی ہونے لگیں تو عاشق اسے منانے کی بجائے
شانِ بے نیازی سے کہے گا۔ ”دیکھو جی! میرے پاس بھی نیلے اور پیلے رنگ کے کنٹیکٹ لینس ہیں۔ اگر تمہاری آنکھیں لال پیلی ہوسکتی ہیں تو میری آنکھیں بھی نیلی پیلی ہوسکتی ہیں۔“ تصّور کیجئے اس وقت بیچاری محبوبہ کی آنکھوں سے برستی برسات کا کیا منظر ہو گا۔

برستی برسات پر خیال آیا کہ ان آنکھوں کے ساتھ رونا منع ہے کیوں کہ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ آنسوؤں کے ساتھ آنکھیں بھی بہہ جائیں۔ کنٹیکٹ لینس کے استعمال کا ایک نقصان یہ بھی ہوگا کہ کبھی کسی نے غصّے میں آنکھیں دکھانی شروع کیں تو دوسرا نہایت پیار سے داغؔ کا شعر پڑھتے ہوئے اپنے کنٹیکٹ لینس نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گا۔

داغؔ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں

(سینئر صحافی، فکاہیہ نگار حمیرا اطہر کے کالموں کے مجموعہ” بات سے بات” سے انتخاب، ان کی یہ تحریر 1979ء میں پاکستان کے ایک مؤقر جریدے میں شایع ہوئی تھی)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں