تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

وہ حُسین ساگر کا نام بدلنا چاہتے ہیں!

جھیل کا نام بھی چُبھنے لگا ہے، جنونی ہندو اسے شری رام سے منسوب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جھیل حیدرآباد دکن کا دل ہے، اس شہر کی خوب صورت شناخت اور لگ بھگ ساڑھے چار سو سال پرانی یادگار، جسے دنیا بھر میں‌ حُسین ساگر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مودی کے ہندوستان میں‌ گلی کوچے، مکان اور ان کے مسلمان مکین ہی نہیں‌، مسجد، مزار اور قدیم یادگاریں، مسلمانوں کے دور کا تاریخی ورثہ کچھ بھی تو محفوظ نہیں اور چند ماہ قبل حُسین ساگر کا نام تبدیل کرنے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔

چند دہائیوں‌ کے دوران قلی قطب شاہ کے دور کی اس مصنوعی جھیل کا حسن و شباب اور اس کی چمک دمک ضرور ماند پڑی ہے، لیکن دکن کی اس یادگار کا وجود اور اس کا حُسن برقرار رکھنا مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

صدیوں‌ قبل حیدرآباد دکن کی اس جھیل کے کنارے ایک باغ لگایا گیا تھا اور اس زمانے میں‌ منفرد تعمیرات سے جھیل کے اطراف کی خوب صورتی بڑھائی گئی تھی جو وقت کے ساتھ خستہ اور بوسیدہ ہونے کے ساتھ کچرے اور گندگی کی نذر ہو گئیں‌۔ ایک طرف ماہ و سال کی گردش اور دوسری جانب انتظامیہ کی غفلت اس تاریخی یادگار کے حُسن و جمال کو نگل رہی ہے۔

اس مصنوعی جھیل کو قطب شاہی دور میں حسین شاہ ولی نے تعمیر کروایا تھا۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ 1559 میں اس جھیل پر کام شروع کروایا گیا جو 1562میں مکمل ہوا۔ جھیل کی تعمیر پر اس زمانے کے دو لاکھ 54 ہزار روپے خرچ ہوئے، اور اس پر تین ہزار سے زائد مزدوروں نے کام کیا۔

جھیل 1600 ایکڑ پر محیط تھی جس کی گہرائی 32 فٹ رکھی گئی۔ اسی جھیل سے حیدرآباد شہر کو گزشتہ چار صدی تک پانی فراہم کیا جاتا رہا اور اس سے قریبی زرعی زمین سیراب ہوتی رہی۔

حُسین ساگر نامی اس جھیل کے وسط میں ایک جزیرہ نما کو جبرالٹر راک کا نام دیا گیا ہے۔ اس پر 1992 میں گوتم بدھ کا مجسمہ نصب کیا گیا جسے 1985 میں تراشا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق جھیل کی تباہی کا سلسلہ ستّر کی دہائی سے شروع ہوا جب اس کے نزدیک لوگوں‌ کو آباد کیا گیا اور یہاں‌ کچرا اور گندگی پھیلنے لگی۔ جھیل کے قریبی علاقوں میں‌ سڑکیں اور پُل تعمیر ہوئے تو لوگوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی اور انتظامیہ نے جھیل کی تاریخی اہمیت اور اس کی افادیت کو نظر انداز کردیا۔ ماہرینِ آثار کے توجہ دلانے اور سماجی تنظیموں‌ کی جانب سے آواز بلند کرنے پر اس طرف توجہ دی گئی ہے تاہم مقامی انتظامیہ مسائل اور مشکلات کا رونا روتی رہتی ہے اور جھیل سے کیچڑ نکالنے یا یہاں صفائی ستھرائی کا مناسب اور باقاعدہ انتظام نہیں‌ ہے۔

حیدر آباد میں قطب شاہی اور دورِ آصفیہ کی یادگار کئی جھیلیں اور باغات کھنڈرات میں‌ تبدیل ہوچکے ہیں اور اب اس جھیل کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو نہایت افسوس ناک اور اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت کی ہر ریاست اور شہروں‌ میں‌ انتہا پسندی اور عدم رواداری بڑھ رہی ہے۔

Comments

- Advertisement -