اشتہار

ابراہیم جلیس: ایک دل نواز اور بے تاب روح کا نام تھا!

اشتہار

حیرت انگیز

اردو کے ممتاز ادیب اور صحافی ابراہیم جلیس نے 26 اکتوبر 1977ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ آج ان کی برسی ہے۔

پاکستان اور بھارت میں بھی ابراہیم جلیس کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی کالموں، افسانوں، ادبی مضامین کے ساتھ صحافت سے وابستگی کے سبب پہچانا جاتا تھا۔

ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ وہ 11 اگست 1922ء کو بنگلور میں پیدا ہوئے لیکن تعلیم و تربیت گلبرگہ، حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ 1942ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کے بعد لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔

- Advertisement -

1948ء میں پاکستان آنے کے بعد یہاں مختلف اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز، حریت اور مساوات شامل تھے۔ وہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے مدیر بنے اور جب 1977ء میں مارشل کے دوران پابندیاں عائد کی گئیں تو انھوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور اسی زمانے میں دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کی موت ہوئی۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغہ حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری کا سفر شروع ہوا تو پہلی بار 1943ء میں ’’ساقی‘‘ نے انھیں‌ اپنے شمارے میں جگہ دی۔ انھوں نے طنز و مزاح لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو اس زمانے کے اہم اور معتبر اخبار اور رسائل میں ان کے کالم شایع ہوئے جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا۔ کئی مضامین، سفر نامے، رپورتاژ، شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے بھی ان کے قلم سے نکلے اور یادگار ٹھہرے۔ فلمی دنیا اور ریڈیو کے لیے بھی اسکرپٹ اور ڈرامے لکھتے رہے۔

ان کی یادگار کتابوں میں چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم جلیس کے انشائیے بھی بہت پسند کیے گئے۔

پاکستان کے اس نام ور قلم کار کے بارے میں معروف ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کا یہ مضمون پڑھیے:‌ ابراہیم جلیس ایک دل نواز اور بے تاب روح کا نام تھا۔ اس کے سینے میں آزادئ انسان کی تڑپ تھی جو لفظوں کی صورت میں اس کے قلم سے کاغذ پر کبھی اشکوں کی طرح ٹپکتی تھی اور کبھی تلخ تبسم کی طرح بکھرتی تھی۔ اس نے برطانوی سامراج کے زمانے میں انسان کی تذلیل دیکھی تھی جس نے اس کے دل میں انسانی وقار کی آرزو پیدا کر دی تھی۔

وہ اس وقت حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ تلوار اور بندوق اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ وہ صرف قلم تک پہنچ سکتا تھا۔ اور اس نے قلم کو اٹھایا اور آخری سانس تک اس قلم سے جہاد کرتا رہا۔

اس کا میدانِ جنگ ہندوستان سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس نے شروع میں افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی۔ لیکن اس کی جلد باز طبعیت نے یہ محسوس کیا کہ شاید افسانہ اور ناول کی دھار اتنی تیز نہیں ہے جتنی صحافت کی دھار تیز ہوتی ہے یا شاید اس کے مزاج میں صحافت زیادہ تھی اس لیے جب اس نے اپنا قلم اٹھایا تو وہ ایک افسانہ نگار تھا اور جب اس نے اپنا قلم ہمیشہ کے لیے رکھ دیا تو وہ ایک بے باک صحافی تھا۔ صحافت میں اس کے جوہر بہت چلے لیکن اس کی قبل از وقت موت نے ان جوہروں کی تابناکی کو بجلی کی چمک حاصل کرنے نہیں دی۔

ہم، اب اس کے لیے سوگوار ہیں۔ وہ جو ہماری محفل کو چھوڑ کر چلا گیا لیکن اس کا قلم، اس کی وراثت ہے۔ کوئی نہ کوئی بے باک صحافی اس کو اٹھا لے گا اور ابراہیم جلیس کی روایت آگے بڑھ جائے گی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں