تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

توہین عدالت کیس: عدالت نے عمران خان کے جمع کرائے گئے جواب پر سوالات اٹھا دیے

اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے جمع کرائے گئے جواب پر سوالات اٹھا دیے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج زیباچوہدری سےمتعلق بیان پرتوہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس ہائی کورٹ کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ، جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بنچ کا حصہ ہیں۔

عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے ، عمران خان کے وکیل حامد خان عدالتی معاونین منیر اے ملک، حامد علی ، پاکستان بار کونسل سے اختر حسین ، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور اے جی اسلام آباد جہانگیر جدون بھی پیش ہوئے۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل شروع کئے تو عدالت نے حامد خان کے علاوہ دیگر وکلا کو بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔

وکیل حامد خان نے بتایا کہ عدالت کو گزشتہ روز ضمنی جواب جمع کرایا گیا،عدالت کی آبزرویشن کے مطابق ہم نے جواب جمع کرایا، ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت کو بتاؤں گا کہ کیسے ہمارا کیس سپریم کورٹ کے ان فیصلوں سے مختلف ہے، میں عمران خان کیس میں سپریم کورٹ کےفیصلے بھی عدالت کے سامنے رکھو گا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین فیصلوں کو ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا ، فردوس عاشق اعوان کیس میں 3 قسم کی توہین عدالت کا ذکر ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ طلال چوہدری کیس کرمنل توہین عدالت نہیں تھی، جوڈیشل، سول اور کریمنل تین طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں، دانیال عزیز ، طلال چوہدری کے مقدمے میں کریمنل توہین نہیں تھی، انہوں نے عدالت کے کردار کو اسکینڈ لائز کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا عمران خان کی کریمنل توہین ہے، کرمنل توہین عدالت سیریس نیچر کی ہے ، کرمنل توہین عدالت میں آپ ارادے کا ذکر نہیں کرسکتے، گزشتہ سماعت پر بھی آپ کو سمجھایا تھا یہ کرمنل توہین عدالت ہے، آپ نے زیر التوا مقدمہ سے متعلق بات کی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کا جواب ہم نے تفصیلی پڑھا ہے ، عمران خان نے ایک زیر سماعت مقدمے میں جج کے حوالے سے الفاظ استعمال کیے۔

عدالت نے سپریم کورٹ کے 1996 کے 7رکنی بینچ کے فیصلے کو پڑھنے کا حکم دیا ، وکیل حامد خان نے کہا عدالت نے ایک اور موقع دیا جس پرتفصیلی جواب داخل کرادیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کریمنل توہین میں آپ کوئی وجہ پیش نہیں کر سکتے ، ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں مگر اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

عدالت نے وکیل حامد خان کو توہین عدالت آرڈیننس کا سیکشن 9 پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کریمنل توہین میں آپ یہ گزارش نہیں کر سکتے کہ میرا یہ مقصد تھا۔

عدالتی حکم پر حامد خان توہین عدالت کے گزشتہ مقدمات کے فیصلے پڑھ رہے ہیں ، فیصلوں میں "غیر مشروط معافی” کے حوالے سے حصہ پڑھا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے واضح کہا کہ اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے ، سوسائٹی میں اتنی ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر  بے عزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ہم نے وکلا تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کئے، پچھلی باربھی سمجھایا تھا ایک شخص کی حیثیت جرم کی نوعیت کا اندازہ لگانے کیلئے اہم ہے ، ہم نے بہت لمبی لائرزموومنٹ کی لیکن اس کے مقاصد حاصل نہ کرسکے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل حامد خان نے استفسار کیا آپ بتائیں کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ فیصلوں کے مطابق درست ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں وضاحت دینے کی کوشش کی، کیا سابق وزیراعظم کا یہ مؤقف درست ہے کہ قانون کے بارے میں علم نہیں تھا۔

جسٹس بابر ستار نے حامد خان کو عمران خان کے شوکاز نوٹس کا پیرا 5 پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا آپ نے کہا کریمنل توہین کا ذکر نہیں، شوکاز میں صاف لکھا ہےعمران خان نے کریمنل اور جوڈیشل توہین کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو مبینہ نہیں لکھا، معاملہ ابھی عدالت میں ہے، یہی رویہ اور  الفاظ سپریم کورٹ ججز کے بارے میں ہوتے تو کیا آپ یہی جواب دیتے، ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے زیادہ اہم ہے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہمارے لئے سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہے، ہم نے لکھا کہ جج کے احساسات کو ٹھیس پہنچی تو اس پر شرمندگی ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ کیا ججز کے کوئی احساسات نہیں ہوتے، جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی، وہ جج کہیں جا رہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس کورٹ نے آپ کو طریقے سے معاملے کی گہرائی سمجھا دی ہے، ضلعی عدلیہ کے ججز بہت کچھ برداشت کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کیا آپ یہ کیس لڑنا چاہتے ہیں؟ یہ صرف خاتون جج کیخلاف بیان نہیں اشتعال دلانے کا کیس ہے، کیا کوئی جلسے میں لیگل ایکشن کی دھمکی لگا سکتا ہے؟
.
جسٹس بابر ستار نے کہا فورم جلسہ نہیں بلکہ شکایت درج کرانے کا فورم ہے ، جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ خاتون جج کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا مقصد نہیں تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جج کے جذبات نہیں ہوتے، عدالت، قانون کا احترام ہوتا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کیاعوامی مقام پر کھڑے ہو کر آپ قانونی ایکشن کا اعلان بھی کرسکتے ہیں؟ آپ کے جواب کے بعد بھی خاتون جج کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر موجود ہے، کل وہ کہیں موٹر وے پر جاتے ہوئےرکیں گی تو کوئی نقصان ہوسکتا ہے، کوئی بھی وہاں ان کے ساتھ نامناسب سلوک کر رہا ہو گا۔

جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ سیاسی لیڈر پبلک میں کھڑا ہو کر لیگل ایکشن کی دھمکی کیسے دے سکتا ہے؟ سیکشن نائن پڑھیں آپ ،اس میں لیگل ایکشن کا طریقہ دیا گیا ہے، فورمز قانون میں بتائے گئے ہیں، فورم پبلک میٹنگ نہیں ہے۔

جس پر وکیل حامد خان نے کہا ہم نے قانونی کارروائی قانون کے دائرے سے باہر جا کر تونہیں کرنا تھی، عمران خان نے کوئی دھمکی نہیں دی شاید محسوس زیادہ کرلی گئی، قانونی کارروائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ عوامی جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ آپ چاہیں تو ہم اسے یہاں چلا سکتے ہیں، عمران خان نے اپنے رویے سے بھی یہ نہیں ظاہر کیا کہ انہیں افسوس ہے ، تقریر اور توہین عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں توجیہات پیش کی جاتی رہی۔

جسٹس بابر ستار کے سوالات پر عمران خان نے شعیب شاہین کو ہدایت کی کہ میں روسڑم پر آنا چاہتا ہوں ، حامد خان سے پوچھو میں روسڑم پر آنا چاہتا ہوں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نہال ہاشمی کیس اسی  طرح کا تھا وہ جج کا نام لیے بغیر تھریٹ تھا ، انہوں نے غیر مشروط معافی مانگی پھر بھی سپریم کورٹ نے کنسیڈر نہیں کیا۔

جس پر وکیل حامد خان نے کہا عمران خان بیان پر کچھ وضاحت کرنا چاہتے ہیں،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ وہ بیان ہم چلا دیں گے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہمارے بارے میں "شرمناک” لفظ کہہ دیتے تو ہم برا نہ مناتے لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے سپریم کورٹ جج کیخلاف توہین سے زیادہ سنگین ہے۔

جس پر وکیل حامد خان نے کہا عمران خان کی تقریر یکسر مختلف ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضلعی عدلیہ کی جج کو دھمکی سپریم کورٹ جج سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے، ہمارے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے ہم کبھی توہین عدالت کارروائی نہ کرتے ، لیکن یہاں معاملہ مکمل مختلف ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ توجیہات پیش کرکے مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں ؟ جس پر وکیل نے کہا نہیں ہم توجیہات پیش نہیں کر رہے صرف وضاحت کررہے ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ اس 5رکنی بینچ کا فیصلہ پسند نہ آیا تو اس کیخلاف بھی کھڑے ہو کر وہی بات کرینگے؟ کیا جس کو فیصلہ پسند نہ آئے وہ ایسا رویہ اختیار کر سکتا ہے؟ عدالت کسی کیخلاف حکم دے اوروہ باہر کہے ، جج کو نہیں چھوڑوں گا، کیا یہ ٹھیک ہوگا ؟

چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ یہاں خاتون جج کو دھمکی دی گئی ،مقدمہ عدالت میں زیرالتوا تھا، آپ کا جواب غلط کام کی توجیہہ پیش کرنا ہے، سیاسی لیڈر کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے لوگ فالو کرتے ہیں، حضور پاک ﷺکی تعلیمات سے سیکھنا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی رہنما کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، ایک رہنما ایک ایک لفظ احتیاط کے ساتھ بولنا چاہیے، مدینہ منورہ میں جو کچھ ہوا وہ بھی اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا، ہمیں حضور ﷺ کی ذات اور فتح مکہ سے سیکھنا چاہئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جوزبان استعمال کی گئی وہ انتہائی نامناسب تھی۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کیا عمران خان ابھی اٹھ کر کہہ سکتے ہیں آپ کیخلاف ایکشن لوں گا، جس پر حامد خان نے کہا لیگل ایکشن۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بار بار سمجھا رہے ہیں یہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہے ، سیاسی لیڈر کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے ، جو الفاظ وہ استعمال کر رہا ہے وہ کیسے ہیں ، ایک رہنما ایک ایک لفظ احتیاط کے ساتھ بولنا چاہیے، ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جو ٹون استعمال ہوئی وہ بہت متعلقہ ہے۔

شہباز گل کے حوالے سے جسٹس طارق محمود کا کہنا تھا کہ 6 میڈیکل بورڈز تشکیل دئیے گئے کسی ایک رپورٹ میں بھی ٹارچر کا ذکر نہیں تھا۔

جسٹس جہانگیری نے بھی ریمارکس دیے شہباز گل کو 6 میڈیکل بورڈز کے 14 ڈاکٹرز نے انہیں چیک کیا، کسی نے میڈیکل بورڈ نے نہیں کہا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا، کیا آپ نے یہ بات اپنے موکل عمران خان کونہیں بتائی؟

جسٹس اطہر من اللہ کا حامد سے مکالمے میں کہنا تھا کہ آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو مبینہ بھی نہیں لکھا ، جبکہ معاملہ ابھی متعلقہ عدالت میں زیر سماعت تھا، آپ اپنے لیے چیزوں کو مشکل نہ بنائیں، اب آپ کا تاثر آگے چلے گا یا جوڈیشل آرڈر؟

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ میں اس طرف نہیں جا رہا بلکہ کیس ختم کرنے کی بات کر رہا ہوں، خاتون جج کو دھمکی دینے کی کوئی نیت نہیں تھی، خاتون جج کو دھمکی لگی تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ لیڈی جج نہیں بلکہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج کا معاملہ ہے ، جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ یہ جینڈر ایشو ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل عمران خان سے مکالمے میں کہا آپ دوبارہ سوشل میڈیا کی بات کرتے ہیں ، کیا آج تک کسی سیاسی لیڈر نے سوشل میڈیا پرکہا کہ غلط کام نہ کریں ،لیڈرشپ اس کی ذمہ دار ہے ، ہر کوئی سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کر رہا ہے، جوڈیشری اس کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔

جس پر وکیل عمران خان نے کہا ہمیں اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت عدلیہ کا یکساں احترام ہے، تاثر یہ بن رہا ہے کہ شاید عمران خان نے خاتون کی وجہ سے جج کو ٹارگٹ کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فردوس عاشق کیس میں عدالت نے کہا تھا شاید آگاہی نہیں ہے ، اس وقت آپ وہ دلیل نہیں لے سکتے وہ آپ کے فیور میں نہیں جائے گی۔

دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے حامد خان کو جواب کا پیراگراف چار پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا وہاں لکھا ہے عمران خان کو پتہ تھا آرڈر چیلنج ہونا ہے، کیا پھر یہ جان بوجھ کراپیل پر پیشگی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیںَ؟ آپ خود کہہ رہے ہیں عمران خان کو پتہ تھا ریمانڈ کے فیصلے کیخلاف اپیل ہوگی۔

جسٹس بابر ستار نے وکیل حامد خان سے مکالمے میں کہا پھر بھی انہوں نے ایسی بات کی؟ تو حامد خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو معلوم نہ تھا کہ اپیل ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، یہ معلوم تھا جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہو سکتی ہے، جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ اپیل دائر کی صورت میں کیس پر اثرانداز ہونا چاہ رہے تھے؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے یاتو ہم اس نظام پر اعتماد کریں یا سب چیزیں جلسے میں طے کریں، خود کیلئے بات کروں گا، میں نے آج تک اسکینڈلائز توہین عدالت کا نوٹس ہی نہیں لیا، ہمیں فرق نہیں پڑتا، روزانہ سوشل میڈیا پرلوگ ہمارے بارے میں جو کہتے ہیں، ہم تو پھر روز توہین عدالت کے کیس ہی سنتے رہیں گے، عدالت پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے مزید کہا جسٹس بابرستار نے فواد چوہدری کیخلاف توہین عدالت درخواست مسترد کی، آپ کو پتہ ہے وہ کیا درخواست تھی؟ اس کو تو کریمنل توہین تصور کیا جا سکتا تھا، فواد چوہدری نے کہا تھا ہم باہر لوگ لے آئیں گے، لیکن ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کا معاملہ ہمارا ہوتا تو ہم نوٹس تک نہ لیتے، یہ عدالت کبھی اسکینڈلائز توہین پر کوئی نوٹس جاری نہیں کرے گی، آپ کا کریمنل توہین عدالت کا کیس بنتا ہے، اگر ہم کہی گئی باتوں پر توہین عدالت لگانا شروع کریں تو روز یہی کام کریں۔

سپریم کورٹ نے جن توہین عدالت مقدمات میں سزائیں دیں ان میں جرم کم تھا، ہمارے سامنے جوڈیشل اور کریمنل توہین ہے، جو بہت حساس معاملہ ہے۔

Comments

- Advertisement -