ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

امام بخش ناسخ کا دبستانِ لکھنؤ اور اصلاحِ زبان

اشتہار

حیرت انگیز

اردو ادب میں لکھنؤ کے ناسخ کو کلاسیکی دور میں اپنی شاعری کے سبب امتیاز بھی حاصل ہے اور وہ رجحان ساز بھی کہلائے۔ اصلاحِ زبان کے لیے ناسخ کو یاد رکھا جائے گا اور دبستانِ لکھنؤ کے لیے بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج استاد امام بخش ناسخ کا یومِ وفات ہے۔

امام بخش ناسخ نے اپنے زمانے میں نہ اردو صرف و نحو پر کام کیا بلکہ روز مرّہ اور محاورات کی چھان پھٹک کی اور اس کے قاعدے بھی مقرر کیے۔ ناسخ نے اردو شاعری کو سنگلاخ زمینوں اور الفاظ کا اسیر ضرور بنایا، لیکن دبستانِ لکھنؤ بھی انہی کے دَم سے قائم ہوا اور اصلاحِ زبان کے ضمن میں ان کے وضع کردہ کئی اصول اور اہم تبدیلیاں ایسی ہیں کہ لکھنؤ میں ناسخ کی زبان کسوٹی بن گئی۔

شیخ امام بخش ناسخ اردو شاعری میں ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے۔ ان کو شاعری کے دبستانِ لکھنؤ کا بانی کہا جاتا ہے۔ غزل میں ناسخ سے پہلے لکھنؤ بھی دلّی ہی کا معترف تھا لیکن بعد میں سیاسی اثرات ایسے پڑے کہ لکھنؤ والوں میں، زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی جداگانہ شناخت کی طلب جاگ اٹھی۔ دلّی کا برائے نام راج رہ گیا تھا اور آئے روز بگڑتے ہوئے حالات اور انگریزوں کی وجہ سے منظر نامہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں جب ناسخ نے دلّی کا لب و لہجہ اور لفظیات چھوڑ کر شاعری کی تو لکھنؤ میں ان کا چرچا ہونے لگا اور سبھی ان کے اسلوب کو اپنانے لگے۔ ناسخ نے جو بنیاد رکھی تھی، ان کے شاگردوں نے اس کی عمارت کو بلند کیا اور باقاعدہ دبستانِ لکھنؤ وجود میں آ گیا اور اردو شاعری پر چھا گیا۔ نازک خیالی، پُرشکوہ اور بلند آہنگ الفاظ کا استعمال اور داخلیت سے زیادہ خارجیت پر اس دور کے شعراء زور دینے لگے۔

- Advertisement -

امام بخش ناسخ کا بچپن والد کے سائے سے محروم تھا۔ امام بخش ناسخ کا سنہ پیدائش 1772ء ہے اور وفات 16 اگست 1838ء کو ہوئی تھی۔ وہ فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ والد کے بعد ان کو لکھنؤ کے ایک تاجر نے گود لیا اور وہیں پروان چڑھے۔ مال دار گھرانے میں‌ رہنے کے سبب ان کی اچھی پرورش ہوئی اور اعلیٰ تعلیم دلائی گئی۔ بعد میں وہ اسی تاجر کی جائیداد کے وارث بھی بنے۔ یوں ناسخ خوش حال اور فارغ البال تھے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔ اردو کے اس ممتاز شاعر کا ایک حوالہ پہلوانی بھی ہے۔ ناسخ خوب تن و توش کے تھے۔ ورزش کا شوق تھا۔ بدن کسرتی اور پھرتیلا تھا۔جیسا کہ ہم نے بتایا وہ ایک مال دار گھرانے کے فرد تھے اور ان کے محمد حسین آزاد کے بقول ناسخ کے تین شوق تھے۔ اوّل کھانا، دوسرا ورزش کرنا اور تیسرا شوق شاعری کا تھا۔ انھیں حاسد طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہتے تھے۔

ناسخ اپنی شاعری میں لفظوں کے نئے نئے تلازمے تلاش کر کے ان کے لئے نئے استعارے وضع کرتے ہیں، ناسخ لفظوں کے پرستار تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے معنیٰ ثانوی اہمیت رکھتے تھے۔ یہ کہنا درست ہے کہ ان کا کلام عربی کے ثقیل اور نہایت بھاری الفاظ کے علاوہ اکثر بے مزہ اور بہت سے اشعار کا مضمون رکیک بھی ہے۔ لیکن بعض اشعار ایسے ہیں جن میں‌ نزاکتِ خیال اور معنی آفرینی انتہا کی ہے۔ نقّادوں کا خیال ہے کہ ناسخ تصویر تو بہت خوب بناتے تھے لیکن اس میں روح پھونکنے سے عاجز رہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں