اشتہار

عنایت اللہ دہلوی: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

اشتہار

حیرت انگیز

عنایت اللہ دہلوی اردو زبان کے بلند پایہ مصنّف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار تھے۔ انھیں اردو زبان و ادب کے ایک محسن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ عنایت اللہ دہلوی نے 24 اکتوبر 1943ء کو ڈیرہ دون میں وفات پائی۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

عنایت اللہ دہلوی کا سنہ پیدائش 1869ء ہے۔ ان کا تعلق دہلی کے محلہ قاضی واڑہ کے ایک مشہور گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اردو زبان و ادب میں اپنے علم و فضل اور تخلیقات کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ ان کا نام مولوی ذکاء اللہ تھا جو اس دور کے ایک انشا پرداز، مؤرخ اور مترجم تھے۔ عنایت اللہ نے ابتدائی تعلیم دہلی میں ایک اتالیق سے حاصل کی اور بعد میں گورنمنٹ اسکول اور عربک اسکول میں داخل ہوئے۔ تیسری جماعت میں تھے جب والد انھیں اپنے ساتھ الٰہ آباد لے گئے۔ اس سفر میں عنایت اللہ کو پہلی بار سر سید احمد خان سے ملاقات کا موقع میسر آیا جو ان کے والد کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔

الٰہ آباد میں 1880ء تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ کے اسکول میں داخل لیا۔ یہاں سے 1885ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1887ء میں ایف اے اور 1891ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور دہلی لوٹ آئے۔

- Advertisement -

علی گڑھ میں تعلیم کے دوران میں سر سید کی توجہ کا مرکز رہے اور ان کی راہ نمائی اور شفقت حاصل رہی جس نے انھیں پڑھنے اور لکھنے پر آمادہ کیے رکھا۔ 1892ء میں سرسید کی فرمائش پر ابو ریحان البیرونی کی مختصر سوانح عمری لکھ کر تصنیفی کام کا آغاز کیا اور سر سید سے داد پائی۔

1893ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے اور سرسید نے کالج کی لائبریری کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ وہ کچھ عرصے کالج میں ریاضی کے اعزازی پروفیسر بھی رہے، اس کے بعد دہلی چلے آئے۔ 1894ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے جہاں سر سید کے ماہنامہ تہذیبُ الاخلاق کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1897ء میں سر سید کی ایما پر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام کا دعوتِ اسلام کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جس کے کئی باب سر سید نے سنے اور داد دی۔

1901ء سے انھوں نے باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا اور ڈسٹرکٹ و سیشن جج جون پور کے منصرم (یعنی چیف سپرٹینڈنٹ) مقرر ہوئے۔ اس ملازمت کے طفیل متعدد شہروں میں تبادلہ اور وہاں قیام کا موقع ملا۔

دار الترجمہ حیدرآباد(دکن) کے قیام کے بعد 20 جنوری 1921ء کو وہ سر راس مسعود اور سر اکبر حیدری کی کوششوں سے دکن آ گئے اور ناظم دارُ الترجمہ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ اس عہدے پر تقریباً 14 سال تک فائز رہے۔

عنایت اللہ دہلوی کی تصانیف اور تراجم پر مبنی کتب کی تعداد 57 ہے۔ ان کی کتابوں‌ میں تذکرہ ابو ریحان البیرونی، خوابِ پریشاں، امپیریل رول ان انڈیا، دعوتِ اسلام، انگریزی نظائر قانون کا ترجمہ، جاپان کا تعلیمی نظم و نسق، صلاح الدین اعظم، یونانی شہنشاہیت، عرب قدیم کا تمدن، تاریخِ ادبیات عرب، چنگیز خان، امیر تیمور، عبرت نامہ اندلس، تاریخ مغل، اندلس کا تاریخی جغرافیہ، سلامبو، تائیس، نجم السحر وغیرہ شامل ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں