یہ کائنات ایک حیرت کدہ ہے، اور ہماری یہ دنیا خانۂ عجائب۔ اس دنیا میں کئی نیک نام ہو گزرے جن کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں اور نجانے کتنے ایسے ہیں جو بدنامِ زمانہ مگر افسانوی شہرت کے حامل ہیں۔ اِسّے ساگاوا ایک ایسا جاپانی شہری تھا جسے اُس کی کسی شخصی خوبی، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر نہیں پہچانا جاتا بلکہ وہ ایک سفاک قاتل اور جنونی تھا۔
یہ 1981ء کا واقعہ ہے جب اِسّے ساگاوا نے رینے ہارٹویلٹ نامی ایک نوجوان ولندیزی عورت کو اپنے اپارٹمنٹ میں قتل کر کے اس کا گوشت کھایا۔ شہرۂ آفاق شہر پیرس میں ایک لڑکی کا لرزہ خیز قتل سب سے بڑی اسٹوری بن گیا۔
اسّے ساگاوا کو گرفتار کر لیا گیا۔ قتل کی اس واردات اور اسّے ساگاوا کی گرفتاری کو اس زمانے میں اخبارات میں نمایاں جگہ دی گئی، ساتھ ہی جاپانی عوام کی مجرم اور اس کے ‘جرم’ میں دل چسپی بڑھ گئی۔ رہائی کے یہی بدنامی ساگاوا کے لیے روزگار کا ذریعہ بنی۔ اس تفصیل سے پہلے اسّے ساگاوا کے حالاتِ زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ساگاوا نے جاپان کے ایک شہر کوبے میں دولت مند والدین کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تھی۔ 26 اپریل 1949 کو پیدا ہونے والے اسّے ساگاوا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے جسم کی لمبائی اتنی تھی کہ وہ ایک بالغ انسان کی ہتھیلی میں سما سکتا تھا۔
وہ خوش قسمت تھا کہ اس کے والدین مال دار تھے۔ انھوں نے اپنی اولاد کو ہر آسائش اور سہولت دی اور ساگاوا نے بھرپور زندگی گزاری۔ مگر وہ سمجھتا تھا کہ دوسرے بچوں کی طرح خوب صورت بلکہ قبول صورت بھی نہیں ہے۔ اس کا احساسِ محرومی وقت کے ساتھ شدید ہوتا گیا۔ لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کس ذہنی خلفشار سے گزر رہا ہے۔ والدین نے اس کی تعلیم و تربیت کا بڑا اہتمام کیا۔ 1977 میں نوجوان اسّے ساگاوا کو پیرس بھیج دیا گیا کہ وہ سوربون اکادمی سے ادبیات میں پی ایچ ڈی کرے۔
پیرس میں تعلیمی مراحل طے کرنے والے اسّے ساگاوا نے 11 جون 1981 کو ولندیزی لڑکی رینے ہارٹویلٹ کو اپنے اپارٹمنٹ پر مدعو کیا۔ اس نے لڑکی کو بتایا تھا کہ وہ اس سے نصابی ضرورت کے لیے جرمن شاعری کا ترجمہ کروانا چاہتا ہے۔ ہارٹویلٹ اس کے اپارٹمنٹ پہنچ گئی۔ وہ اس کی ساتھی طالبہ تھی۔ ساگاوا نے اس لڑکی کو شاعری پڑھنے کو دی۔ کچھ دیر بعد وہ بہانے سے اٹھا اور اپنی رائفل نکال لایا۔ اسّے ساگاوا نے لڑکی پر پشت سے گولی داغ دی جو اس کے سَر میں گھس گئی۔ ہارٹویلٹ موت کے سفر پر روانہ ہوگئی۔
ساگاوا زیادہ دیر تک آزاد نہ رہ سکا اور گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اپنے جرم کی جو تفصیل بتائی وہ اسے ایک خبطی اور جنونی ظاہر کرتی ہے۔ ساگاوا نے کہا کہ ہارٹویلٹ صحت مند اور حسین تھی اور اسی لیے اسے اپنا شکار بنایا۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں خاصیتیں اس میں موجود نہ تھیں اور وہ خود کو غیرمتاثر کن شخصیت کا مالک سمجھتا تھا۔ ساگاوا نے کہا کہ وہ ایک ‘کم زور، بدصورت اور ناکافی’ آدمی ہے۔ پولیس نے جب یہ پوچھا کہ قتل کے بعد اس نے لڑکی کا گوشت کیوں کھایا تو اس سفاک قاتل نے بتایا کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ لڑکی کی ماہیت کو اس کا بدن جذب کر لے گا اور اس طرح ساگاوا کی شخصیت نکھر سکتی ہے۔
پولیس کے سامنے ساگاوا نے کہا کہ گولی چلانے کے بعد اُسے بہت صدمہ ہوا، جس کے سبب وہ بے ہوش ہو گیا۔ مگر بیدار ہونے پر اسے پھر اس خیال نے جکڑ لیا کہ اپنے منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ ایک خوش گوار زندگی شروع کرسکتا ہے۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا۔ ساگاوا نے اعتراف کیا کہ اس نے لاش کے ساتھ جنسی فعل بھی انجام دیا اور پھر اس کا گوشت کھایا۔
دو دن بعد ساگاوا نے لاش کو ایک دور دراز علاقے میں موجود جھیل میں پھینکنے کی کوشش کی، مگر وہاں کسی نے اسے دیکھ لیا اور مشکوک سمجھ کر پولیس کو رپورٹ کر دی۔ ساگاوا کو فرانسیسی پولیس نے جلد ہی گرفتار کرلیا اور مجرم کے اپارٹمنٹ کی تلاشی کے دوران مقتولہ کے کچھ جسمانی اعضا بھی انھیں فریج سے مل گئے۔
ساگاوا کو قانونی طور پر پاگل قرار دیا گیا اور اسے مقدمے کے لیے نااہل تصور کرکے منصف کے حکم پر غیر معینہ مدت تک پاگل خانے میں داخل کردیا گیا۔ یہ ایک قسم کی نظر بندی تھی۔ اس زمانے میں ساگاوا سے پاگل خانے میں اِنُوہیکو یوموتو نامی جاپانی مصنّف نے ملاقات کی اور اس کی کہانی اور جرم کی تفصیلات جاپان میں شائع کروائیں۔ اس اسٹوری نے ساگاوا کو جاپان بھر میں مشہور کر دیا۔ ادھر فرانسیسی حکومت نے ساگاوا کو جاپان کے سپرد کر دیا۔ جاپان پہنچنے پر ساگاوا کو اسپتال میں داخل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اُسے صحیح الدّماغ قرار دیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جنسی کج روی کے سبب ساگاوا نے لڑکی کو قتل کیا تھا۔ اس بات کو اس لیے بھی درست تسلیم کیا گیا کہ ساگاوا فرانس میں گرفتاری کے بعد یہ بتا چکا تھا کہ وہ اکثر جسم فروش عورتوں کو اپنے اپارٹمنٹ پر لاتا تھا اور ان میں سے چند عورتوں کو قتل کرنے کا ارادہ بھی کیا مگر ہمت نہ کرسکا۔
ساگاوا کو جاپان میں اس کی شہرت نے اکثر تقاریب میں بطور مہمان مقرر شرکت کا موقع دیا۔ وہ قلم کار بن گیا۔ اس نے کئی مضامین لکھے۔ وہ لیکچر دینے لگا جس پر جاپان میں اسے شدید تنقید بھی برداشت کرنا پڑی۔ لوگ یہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے کہ ایک جنونی اور قاتل شخص کو اس درجہ اہمیت دی جارہی ہے۔ اسّے ساگاوا نومبر 2022 میں چل بسا۔ اس کے ماں باپ 2005 میں وفات پاگئے تھے۔
12 اگست 1986 کو ساگاوا نے فرانس کے پاگل خانے میں اپنی روانگی کا اندراج کیا تھا۔ اس کے بعد جاپان پہنچ کر وہ ایک نہایت بدنام مگر افسانوی شہرت کا حامل شخص بن گیا۔ لوگ اس پر لعن طعن کرتے تھے مگر ساگاوا نے ہر بار اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کیا اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
ساگاوا نے ایک ناول بھی لکھا اور ادیب کے طور پر اپنی زندگی شروع کی۔ اس نے اپنے جرم کے بارے میں متعدد کتابیں لکھیں اور دیگر کئی موضوعات پر اس کے مضامین بھی جرائد کی زینت بنے۔ بعد میں اس نے آدم خوری کے موضوع پر بننے والی فلم میں اداکاری بھی کی اور پھر چند فحش فلموں میں بھی کام کیا۔ ساگاوا اپنے انٹرویوز میں اپنے جرم پر پچھتاوے کا اظہار کرتا رہا۔ لیکن اسے آج بھی مطعون کیا جاتا ہے اور لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔