تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

جلیاں والا باغ سانحے کو 100 برس مکمل

برصغیر کی تحریکِ آزادی میں ایک اہم موڑثابت ہونے والے واقعے ’جلیاں والا باغ‘ کو 100 سال بیت گئے ہیں‘اس واقعے نے برصغیرمیں آزادی کی مہم کو مہمیزکیا تھا‘ سنہ 1997 میں بھارت کے دورے پرملکہ برطانیہ نے اس تاریخ کا افسوس ناک باب قراردیا تھا۔

معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق’’ اپریل 1919ءمیں جب رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تو پنجاب اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ ان دنوں پنجاب کا گورنر سر مائیکل فرانسس او ڈائر تھا ‘جس نے پنجاب میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کرکے بریگیڈیئر جنرل ریگنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نامی ایک سخت گیر اور ظالم شخص کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ ”نافرمان عوام“ کی سرکوبی کے لیے مامور کردیا‘‘۔

دس اپریل 1919ءکو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے میں دو سیاسی رہنماﺅں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کرلیا اور ان کی گرفتاری پر جب عوام نے جلوس نکالنا چاہا تو ان پر گولی چلا دی گئی۔

جلیاں والا باغ میں تعمیر کردہ یاد گار

تیرہ اپریل 1919ءکو امرتسر کے عوام ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی اسیری کے خلاف جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے۔ یہ باغ انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک درباری پنڈت جلانے بنوایا تھا اور اسی کے نام سے موسوم تھا۔ یہ باغ کوئی دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے، باغ سے باہر جانے کے چار پانچ راستے تھے مگر کوئی بھی چار پانچ فٹ سے زیادہ چوڑا نہ تھا۔

جب اس جلسے کا علم جنرل ڈائر کو ہوا تو وہ مشین گنوں اور رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچ گیا اور اس نے بغیرکسی انتباہ کے عوام پر فائرنگ کا حکم دے دیا۔ یہ فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک اسلحہ ختم نہیں ہوگیا۔

انگریز مورخین کے مطابق اس سانحہ میں 379 افراد ہلاک اور 1203 زخمی ہوئے۔ سنگدلی کی انتہا یہ تھی کہ سانحہ کے فوراً بعد کرفیو نافذ کرکے زخمیوں کو مرہم پٹی کا انتظام بھی نہ کرنے دیا گیا۔اس سانحے نے پورے پنجاب میں آگ لگا دی جس پر قابو پانے کے لیے دو دن بعد پورے پنجاب میں مارشل لاءنافذ کردیا گیا۔

سنہ 1997 میں برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھارت کا دورہ کیا تو وہ جلیاں والا باغ بھی گئیں تھی‘ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ میں کچھ افسوس ناک واقعات بھی ہیں تاہم تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اس موقع پر بھارت میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کمار گجرال کہتے نظر آئے تھے کہ’’اس سانحے کے وقت ملکہ پیدا نہیں ہوئی تھیں لہذا انہیں معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

وہ کنواں جس میں سے سینکڑوں لاشیں نکالی گئی تھیں

اگرچہ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے 1961ء اور 1983ء کے دوروں میں اس قتلِ عام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا مگر 13 اکتوبر، 1997ء کے سرکاری عشائیے میں انہوں نے یہ کہا:

بے شک ہمارے ماضی میں کئی مشکل دور آئے ہیں جن میں جلیاں والا باغ انتہائی تکلیف دہ مثال شامل ہے۔ میں وہاں کل جاؤں گی۔ مگر تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا، چاہے ہم کتنی کوشش کر لیں۔ اس کے اپنے دکھ اور خوشی کے لمحات ہیں۔ ہمیں رنج سے سیکھ کر اپنے لیے خوشیاں جمع کرنی چاہیئں۔

14 اکتوبر، 1997ء کو ملکہ الزبتھ دوم نے جلیاں والا باغ کا دورہ کیا اور نصف منٹ کی خاموشی اختیار کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس وقت ملکہ نے زعفرانی رنگ کا لباس زیبِ تن کیا تھا جو سکھ مذہب کے لیے مذہبی اہمیت کا حامل رنگ ہے۔ یادگار پر پہنچ کر انہوں نے اپنے جوتے اتارے اور پھول چڑھائے۔

اگرچہ انڈین لوگوں نے پچھتاوے کے اظہار اور ملکہ کے رنج کو قبول تو کیا مگر بعض نقاد کہتے ہیں کہ یہ معافی نہیں تھی۔ تاہم اس وقت کے انڈین وزیرِ اعظم اندر کمار گجرال نے ملکہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو ملکہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔

ملکہ برطانیہ الزبتھ جلیاں والا باغ کے دورے پر

8 جولائی، 1920ء کو ونسٹن چرچل نے ایوانِ نمائندگان کو کرنل ڈائر کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ چرچل نے ہاؤس کو کرنل ڈائر کو زبردستی ریٹائر کرنے پر آمادہ کر لیا مگر چرچل چاہتے تھے کہ کرنل کو سزا بھی ملتی۔

فروری 2013ء کو ڈیوڈ کیمرون پہلے برطانوی وزیرِ اعظم تھے جنہوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے اور امرتسر قتلِ عام کو ‘برطانوی تاریخ کا انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا‘۔ تاہم کیمرون نے سرکاری طور پر معافی نہیں مانگی۔

دو روز قبل پاکستان کے وفاقی وزیراطلاعات نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ وہ اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ سلطنت برطانیہ جلیاں والاباغ قتل عام اور قحط بنگال پرپاکستان، بھارت اوربنگلا دیش سے معافی مانگے۔انھوں نے مزید کہا تھا کہ برطانیہ کو کوہ نور ہیرا بھی لاہورمیوزیم کو واپس کرنا چاہیے، ساتھ ہی معافی مانگنی چاہیے۔

Comments

- Advertisement -