تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

جوشؔ ملیح آبادی: شاعرِ‌‌ ‘آخرُالزّماں’ کا یومِ وفات

جوشؔ ملیح آبادی نے خود کو شاعرِ‌‌ آخرُ الزّماں قرار دیا تھا۔ بلاشبہ وہ قادرُالکلام اور ایسے نکتہ سنج تھے کہ شاعری کو ایک طرزِ سخن اور نثر کو وہ نیا پیمانہ دیا جس نے ہم عصروں میں انھیں ممتاز کیا اور شعروادب میں نئے آنے والے ان سے متأثر ہوئے۔

کسی کا عہدِ جوانی میں پارسا ہونا
قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی

کسی نے کیا خوب بات کہی کہ جوشؔ نے یہ شعر کہہ کر درحقیقت اپنی سوانحِ حیات کا دیباچہ تحریر کر دیا۔ جوشؔ صاحب، جوانی میں صرف کوئے جاناں کے طواف کے قائل تھے اور حسن پرستی ان کا شعار رہا۔

جوشؔ ملیح آبادی کو علم و ادب سے رغبت اور شعر و سخن کا مذاق کیوں نہ ہوتا کہ ان کے پَر دادا صاحبِ دیوان شاعر، دادا شعر و ادب کے شائق اور والد بھی سخن وَر تھے۔ جوش صاحب کی دادی مرزا غالب کے خاندان سے تھیں جب کہ ان کے خاندان کی دیگر خواتین بھی نہایت باذوق اور بعض ان میں‌ سے علمِ عروض سے بھی واقف تھیں۔ اسی ماحول کے پروردہ شبیر حسن خاں تھے جو شاعر ہوئے تو جوشؔ ملیح آبادی کے نام سے شہرت پائی۔

جوش نے کہا تھا:

شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ مِرا فنِ خاندانی ہے

آج جوشؔ ملیح آبادی کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 22 فروری 1982ء کو یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ ان کا وطن ملیح آباد تھا، جہاں انھوں نے 1898 کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کا خاندان تعلیم یافتہ اور علم و ادب کا رسیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ابتدائی عمر ہی سے انھیں‌ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح سخن لی۔ پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا۔ عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

جوش نوعمری میں شعر کہنے لگے تھے اور بعد میں مضامین کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے نثرنگاری بھی شروع کی۔ یہ سلسلہ فلم نگری سے وابستگی تک پھیل گیا۔ انھوں نے فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریرکیے اور گیت بھی لکھے، لیکن طبیعت میں ٹھیراؤ نہ تھا۔ اس لیے کہیں ٹکے نہیں۔ نظام حیدر آباد میر عثمان علی خاں نے دارالترجمہ میں رکھ لیا، لیکن مزاج میں ٹیڑھ، کجی اور متنازع باتوں کی وجہ سے وہاں سے نکالے گئے۔

جوش ملیح آبادی کی رندی و بے باکی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ اپنے خیالات کے اظہار میں اکثر نامعقول اور غیر مناسب رویہ اپناتے اور تنازع جنم دیتے رہتے۔ ایک زمانے میں وہ علامہ اقبال کے خلاف ہوگئے اور جب ان کی جانب سے اس کا تحریری اظہار کیا گیا تو فراق گورکھ پوری نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔

اپنے ایک خط میں انھوں نے جوش کو سخت انداز میں مخاطب کیا ہے۔ فراق نے جوش کے نام الہ آباد سے 2 جنوری 1975 کو یہ خط تحریر کیا تھا جس کی چند سطور آپ کی توجہ اور دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

‘‘تمھارا جو ایک خفیہ انٹرویو تھا یعنی اسے تمھارے مرنے کے بعد شایع ہونا چاہیے تھا مگر تمھارے حاشیہ برداروں نے اس کو قبل از وقت شایع کر کے راز کو فاش کر دیا اور تمھارے اوپر عتاب نازل ہونے لگے۔ میرے نزدیک یہ تمھاری غلطی تھی۔

صحیح بات تو یہ ہے کہ تم اقبال کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ اقبال نے دینِ اسلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس کی افادیت میں اعلیٰ پیمانے کی گہر افشانی کی ہے۔ ان کا علم اس معاملے میں مکمل ہے۔ تم دین سے واقف ہی نہیں اور دین کی گہرائیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے علم کم ہے اور اس پر طرفہ یہ کہ تم دہریے بھی ہو۔’’

‘‘تمھاری شاعری اس لیے نہیں مانی جا سکتی کہ اس میں تضاد ہے۔ میں نے جو اقبال پر اعتراضات کیے ہیں ان کی نوعیت الگ ہے۔ وہ ملت کی شاعری اگر نہ بھی کرتے تو بھی عظیم ترین شاعر ہوتے۔ لیکن ملت کی شاعری پر بھی میں تنقید نہیں کرسکتا کیوں کہ میں اسلامی مسائل سے نابلد ہوں اور اگر واقف ہوتا بھی تو بھی مجھے اس کا حق نہیں کہ کسی کے دینی معاملات میں دخل دوں۔ ملت کی شاعری کے علاوہ اقبال نے جو کہا ہے وہ بھی بہت کچھ ہے۔

تمھاری تنقید اقبال پر ہر اعتبار سے غیر معتبر ہے۔ کیوں کہ تم اس تضاد کا شکار ہو کہ کبھی تم دہریے بن جاتے ہو اور کہیں پر مرثیے میں اپنے جوہر دینی طور پر دکھانے لگتے ہو۔ میں میر انیس، محسن کاکوروی، تلسی داس وغیرہ کو اس لیے نہیں مانتا کہ وہ مذہبی شاعر تھے بلکہ ان کی فن کارانہ صلاحیتیں ادبی دنیا کا عظیم ذخیرہ ہیں۔

اقبال کی شاعری میں جو تضاد ہے وہ بھی عقل و دانش کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ تمھاری شاعری کا بنیادی تضاد مشقِ سخن پر دلالت کرتا ہے۔ مذہبی دائو پیچ، سیاسی جوڑ توڑ یہ سب شاعری میں ابھرنے کے لیے ہیں۔ تم اقبال کو برا کہہ کر اقبال سے بلند ہونے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ یہ گناہِ عظیم ہے۔ وقت کی کسوٹی نے جتنا کھرا تم کو مان لیا ہے اسے کھوٹا نہ کرو۔’’

پاکستان آنے کے بعد جوش اردو بورڈ سے منسلک ہوئے لیکن اختلافات کے بعد سبک دوش ہونا پڑا۔ اس عرصے میں شاعری کا تو خوب شہرہ ہوا، لیکن وہ اپنے خیالات اور رجحانات کی وجہ سے ناپسندیدہ بھی رہے۔ جوش نے غزل ہی نہیں نظموں اور رباعیات میں بھی کمال دکھایا۔ مرثیہ گوئی میں خود کو منوایا اور اس صنفِ سخن کا حق ادا کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، رامش و رنگ، سنبل وسلاسل، سیف و سبو شامل ہیں۔

یادوں کی بارات جوش کی خود نوشت ہے جس کے متعدد ابواب تنازع و اختلاف کا سبب بنے۔ یہ کتاب ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی موضوعِ بحث بنی۔ دیگر نثری کتب میں مقالات زریں، اوراق سحر اور ارشادات شامل ہیں۔

جوشؔ کے چند اشعار پڑھیے۔

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا لیکن
ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
اے دوست دل میں گردِ کدورت نہ چاہیے
اچھے تو کیا برے سے بھی نفرت نہ چاہیے

Comments

- Advertisement -