کئی سال پہلے ملک کیف پر ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس کا نام اغور تھا۔ وہ ہر وقت سیر و تفریح میں مصروف رہتا تھا۔ اسے ملک کے انتظام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوگ اغور کو بہت ناپسند کرتے تھے۔
اس کی ملکہ اولگا بہت خوبصورت، عقلمند اور ہوشیار عورت تھی۔ اس نے ملک کا سب انتظام سنبھالا ہوا تھا۔ مظلوم لوگ ظلم و ستم کی فریاد لے کر ملکہ کے پاس پہنچتے۔ وہ ان کی فریاد سنتی، ظالموں کو سخت سزا دیتی اور مظلوموں کو جو نقصان پہنچا تھا اسے خزانے سے پورا کر دیتی۔ وہ غریبوں اور حاجت مندوں کی امداد کرتی رہتی تھی۔ رعایا کے سب لوگ چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، سبھی ملکہ کو بے حد چاہتے تھے۔
ایک دن بادشاہ اغور شکار کھیلتا ہوا اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور بدقسمتی سے ایک ایسے علاقے میں جا نکلا جہاں ایک دشمن قبیلے ڈرالون کی حکومت تھی۔ یہ وحشی اور جنگجو قبیلہ تھا۔ ان کی گزر اوقات لوٹ مار اور غارت گری پر تھی۔ وہ قافلوں کو لوٹ لیتے یا آس پاس کی بستیوں میں لوٹ مار کر قتل اور غارت گری کرتے۔ ان کی دہشت دور دور تک بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈرالون کے سردار نے بادشاہ اغور کو بہت تکلیفیں پہنچائیں۔ آخر اسے مار ڈالا اور لاش کو ایک صندوق میں بند کر کے ملکہ اولگا کے پاس بھیج دیا۔ جب ملکہ نے صندوق کھولا اور لاش کو دیکھا تو اسے بے حد رنج اور شدید صدمہ پہنچا۔ ملکہ اولگا بہت ہمت اور حوصلے والی تھی۔ اس نے اپنے رنج و غم کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ دربار میں موجود سب لوگوں کا یہی مطالبہ تھا کہ بادشاہ کے قتل کا انتقام لیا جائے اور ڈرالون قبیلے کو سخت سزا دی جائے۔
ملکہ نے بہت تحمل سے جواب دیا، "میرے معزز درباریو! میں بادشاہ کے قتل کا انتقام ضرور لوں گی لیکن میں چاہتی ہوں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی میں ڈرالون والوں سے انتقام بھی لے لوں اور ہمارا کوئی نقصان بھی نہ ہو۔”
شاہ اغور کو قتل کرنے کے بعد ڈرالون کے سردار کا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ اس نے سوچا اگر میں ملکہ اولگا سے شادی کر لوں تو اس طرح ملک کیف بھی ہمارے قبضے میں آ جائے گا۔ چنانچہ اس نے بیس آدمیوں کا ایک وفد ملکہ اولگا کی خدمت میں بھیجا اور ان کی معرفت شادی کا پیغام ملکہ کو پہنچایا۔ ملکہ اولگا، ڈرالون سردار کی اس جسارت پر بے حد ناراض ہوئی۔ وہ بہت ہوشیار اور عقلمند عورت تھی، اس لیے اس نے اپنے غیظ و غضب کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور بولی، "تم لوگوں نے میرے دل کی بات کہہ دی، میں خود بھی تمہارے سردار سے شادی کرنے کی آرزو رکھتی تھی۔ اب تم اپنے ڈیرے واپس جاؤ۔ کل میں اپنے امیروں اور وزیروں کو تمہارے پاس بھیجوں گی تاکہ وہ تمہیں عزت و احترام سے اپنے ساتھ لائیں۔”
ملکہ اولگا نے وفد کے سربراہ کو بہت سے تحفے تحائف دے کر ڈرالون سردار کے پاس اسی وقت روانہ کر دیا اور کہلوایا کہ میں شادی کے لیے تیار ہوں۔
جب ڈرالون والے اپنے ڈیرے پر جا چکے تو ملکہ نے اپنے امیروں اور وزیروں سے کہا، "انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ خبردار، میرے حکم کی تعمیل میں کوئی اعتراض نہ کرنا۔ میں جیسا کہوں ویسا ہی کرنا۔”
اگلے دن صبح سویرے وزیر اور امیر وفد کے استقبال کے لیے جا پہنچے۔ انہوں نے کہا، "آپ تشریف لے چلیے، ملکہ حضور نے آپ لوگوں کو یاد فرمایا ہے۔”
ڈرالون کے لوگ وحشی ہونے کے ساتھ ساتھ احمق بھی تھے۔ انہوں نے کہا، "ہم نہ گھوڑوں پر سوار ہو کر جائیں گے اور نہ کسی اور سواری پر بیٹھیں گے۔ ہم تمہارے کندھوں پر سوار ہو کر جائیں گے تاکہ لوگوں پر ہمارا رعب بیٹھ جائے اور وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب ہم ان کے حاکم ہوں گے۔”
یہ بیہودہ فرمائش سن کر کیف کے امیروں کو بےحد غصہ آیا۔ ایک وزیر نے کہا، "ہماری ملکہ کا حکم ہے کہ ہم آپ لوگوں کو عزت و احترام سے لے کر جائیں۔ اگر آپ لوگوں کی یہ مرضی ہے تو ہمیں آپ کی یہ شرط منظور ہے۔” یہ کہہ کر انہوں نے ڈرالون والوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور محل کی طرف لے چلے۔ جب وہ محل کے نزدیک پہنچے تو ایک دربان انہیں محل کی پچھلی طرف لے گیا۔ وہاں ایک گہرا کنواں کھدا ہوا تھا۔ انہوں نے ڈرالون والوں کو یہاں اتار دیا۔ دربان نے کہا، "ملکہ کا حکم ہے کہ ان معزز مہمانوں کو زندہ دفن کر دیا جائے۔”
اب ڈرالون والے بہت گھبرائے اور انہوں نے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ملکہ اولگا کے امیروں نے انہیں دھکیل کر کنویں میں گرا دیا۔
اس کام سے فارغ ہو کر ملکہ اولگا نے اپنے کچھ ہوشیار امیروں کو ڈرالون کے سردار کے پاس بھیجا۔ انہوں نے سردار کی خدمت میں بہت قیمتی تحفے پیش کیے اور کہا، "ہماری ملکہ کو آپ سے شادی کرنا منظور ہے۔ آپ نے جو لوگ بھیجے تھے وہ ملکہ نے اپنے پاس ٹھہرا لیے ہیں تاکہ وہ آپ کے آداب اور رسوم سے واقف ہو جائیں۔ ہماری ملکہ کی خواہش ہے کہ آپ اپنے اعلی شہہ سواروں، فوجی افسروں اور معزز لوگوں کو بھیجیں تاکہ وہ انہیں دھوم دھام سے یہاں لائیں۔”
ڈرالون کا سردار یہ خوش خبری سن کر پھولا نہ سمایا۔ اس نے اپنے سب معزز سرداروں، فوجی افسروں، امیروں اور وزیروں کو ملکہ اولگا کے پاس بھیجا تاکہ وہ ملکہ کو شان و شوکت سے اپنے ساتھ لے کر آئیں۔ ملکہ اولگا نے ان لوگوں کی خوب خاطر و مدارت کی۔ اس نے کہا، "معزز مہمانو! آپ لوگ لمبے سفر سے تھک گئے ہوں گے، اس لیے پہلے غسل کر کے اپنے کپڑے تبدیل کر لیجیے۔”
انہیں غسل کے لیے حمام بھیج دیا گیا۔ یہ گرم حمام یا غسل خانے خاص طرح کے ہوتے ہوتے تھے۔ ان کے فرش کے نیچے دھیمی دھیمی آنچ ہوتی تھی تاکہ غسل خانہ گرم رہے۔
جب یہ لوگ حمام میں داخل ہوئے تو اس کے دروازے بند کر دیے گئے اور فرش کے نیچے آگ تیز کر دی گئی۔ تھوڑی دیر میں حمام میں سخت گرمی ہو گئی۔ ڈرالون کے لوگ گرمی سے بے تاب ہو کر چیخنے چلانے لگے لیکن کسی نے دروازہ کھول کر نہیں دیا۔ آخر وہ سب لوگ حمام کے اندر دم گھٹ کر مر گئے۔
اب ملکہ اولگا نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ پہلے اس نے ایک قاصد ڈرالون سردار کے پاس بھیجا۔ اس نے اطلاع دی کہ ہماری ملکہ روانہ ہو چکی ہیں۔ وہ شہر کے باہر قیام کریں گی۔
پہلے وہ سب سرداروں، معزز لوگوں اور فوج کے سب سپاہیوں کی دعوت کریں گی۔ اس کے بعد وہ ان سب لوگوں کے ہمراہ محل میں داخل ہوں گی۔ شادی کی رسم محل کے اندر ادا کی جائے گی۔
ڈرالون سردار بہت خوش ہوا۔ جب اسے ملکہ کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ کی ہزاروں بہادر سپاہیوں، سرداروں اور امیروں کے ساتھ ملکہ کے استقبال کے لیے نکلا۔ ملکہ اولگا نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ سردار نے پوچھا، "میں نے جو فوجی افسر اور سردار آپ کے استقبال کے لیے بھیجے تھے وہ کہاں ہیں؟”
ملکہ اولگا نے کہا، "وہ پورے لشکر کے ساتھ پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔” یہ جواب سن کر ڈرالون کا سردار مطمئن ہو گیا۔
رات کے وقت ملکہ نے ڈرالون سردار اور اس کے ساتھیوں کی پُرتکلف دعوت کی۔ طرح طرح کے کھانے دستر خوان پر چنے گئے۔ سب لوگوں نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔ اس کے بعد شراب کا دور چلا۔ شراب میں کوئی تیز نشہ اور دوا ملائی گئی تھی۔ اس لیے دو چار جام پی کر سب لوگ مدہوش ہو گئے۔ جب ملکہ کو یقین ہو گیا کہ اب انہیں کسی بات کا ہوش نہیں رہا ہے تو اس نے اپنے سپاہیوں کو اشارہ کر دیا۔ ڈرالون والوں کی یہ حالت تھی کہ وہ بھاگنا چاہتے تھے مگر نشے کی وجہ سے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ اٹھ اٹھ کر گرتے اور گرنے کے بعد پھر اٹھنے کی کوشش کرتے۔ ملکہ اولگا کے سپاہیوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔
ڈرالون سردار کسی نہ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے ملکہ کی چال بازی کی سب کو اطلاع دی۔ اسی وقت شہر کے سب دروازے بند کر دیے گئے۔ ہر طرف ایک افراتفری مچ گئی۔ لوگ حیران پریشان تھے۔ ان کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟
ملکہ نے ڈرالون والوں کی قوّت بالکل توڑ دی تھی۔ اب ان میں مقابلے کی سکت بالکل نہ رہی تھی۔ وہ قلعہ بند کر کے بیٹھ گئے۔ ملکہ نے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ اس نے قلعہ فتح کرنے کے لیے کئی حملے کیے، لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکی۔
آخر ملکہ نے چالاکی سے کام لیا۔ اس نے اپنے سفیر کے ذریعے پیغام بھیجا، "میں نے قسم کھائی تھی کہ میں یہ قلعہ فتح کیے بغیر واپس نہیں جاؤں گی۔ لیکن اگر تم صلح کرنا چاہو تو میں تمہارا قصور معاف کر دوں گی۔ میں تم سے معمولی جرمانہ وصول کروں گی جو تم آسانی سے ادا کر سکتے ہو۔”
ڈرالون سردار نے کہلوایا، "مجھے صلح کرنی منظور ہے۔ آپ جو جرمانہ طلب کریں گی میں ادا کروں گا۔”
ملکہ نے کہلوایا، "ہمارے ملک میں کبوتر اور چڑیاں نہیں ہوتے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر گھر سے دو چڑیاں اور دو کبوتر بھیجے جائیں۔ میں اس جرمانے کو وصول کر کے واپس چلی جاؤں گی۔”
ڈرالون سردار نے یہ پیغام سن کر کہا، "یہ کون سی مشکل بات ہے؟ ہم ایسی آسان شرط پر ملکہ سے صلح کرنے کو تیار ہیں۔”
دو تین دن کے اندر ہر گھر سے چڑیا اور کبوتر اکھٹے کر کے ملکہ کی خدمت میں روانہ کر دیے گئے۔
ملکہ نے حکم دیا جتنے کبوتر اور چڑیاں ہیں، اتنی ہی لوہے کی چھوٹی چھوٹی سلائیاں تیار کی جائیں۔ ان کے ایک سرے پر روئی کی گولی تیل میں ڈبو کر باندھ دی جائے۔ ان سلائیوں کا دوسرا سرا چڑیاؤں اور کبوتروں کی دموں سے باندھ دیا جائے۔
سپاہیوں نے ملکہ کے حکم کی تعمیل کی۔ شام کے وقت روئی کی گولیوں میں آگ لگا کر ان چڑیاؤں اور کبوتروں کو چھوڑ دیا گیا۔ پرندوں کے اڑنے سے آسمان پر ایک عجیب قسم کی آتش بازی کا تماشا نظر آیا۔ ڈرالون کے لوگ یہ تماشا دیکھنے کے لیے اپنے کوٹھوں پر چڑھ گئے۔ ہر طرف پھلجڑیاں سی چھوٹ رہی تھیں۔ لوگ اس تماشے کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ ذرا دیر بعد یہ چڑیاں اور کبوتر اپنے اپنے گھونسلے میں جا پہنچے۔
وہ جہاں پہنچے اور جس گھر میں اترے، اس میں آگ لگ گئی۔ قلعے کے ہر کونے اور آبادی کے ہر گھر سے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ ہر طرف آگ کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس میں جل کر مر گئے۔ لوگوں نے گھبرا کے قلعے کا پھاٹک کھول دیا اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ لیکن یہاں ملکہ اولگا کے سپاہی ان کی گھات میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ ہزاروں لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا اور ڈرالون کی پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔ اور ان کے قلعے اور آبادی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔
اس طرح ملکہ اولگا نے بادشاہ کے قتل کا انتقام لیا۔ اس پورے معرکے میں اس کا ایک بھی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔
(ادبِ اطفال سے انتخاب)