ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

لیاقت علی خان:‌ وہ استقامت کا آدمی تھا!

اشتہار

حیرت انگیز

قائدِ ملت نواب گھرانے کے چشم و چراغ تھے، لیکن آپ کی ساری زندگی عیش و نشاط کے بجائے جہدِ مسلسل اور سادگی کا مرقع تھی۔

علم و ادب کا ذوق و شوق والدین کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں خوب پروان چڑھتا رہا۔ 1923ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر کے قائدِ ملت نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ کی سیاسی بصیرت اور تدبر کے پیشِ نظر 1936ء میں قائدِ اعظم نے آپ کو سیکریٹری جنرل بنایا۔ قائدِ اعظم کے اس فیصلے پر کئی رہنماؤں نے اظہارِ حیرت کیا تو آپ نے فرمایا ” لیاقت علی خان ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے گراں قدر اثاثہ ہیں۔“ اور لیاقت علی خان نے بھی اپنے قائد کے اس قول کو حرزِ جاں بنالیا کہ ”مقصد سے عشق دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔“ آپ قائدِ اعظم کے دستِ راست بنے سرگرمِ عمل رہے۔

1943ء میں مسلم لیگ کراچی کے ایک اجلاس میں قائدِ اعظم نے فرمایا
”لیاقت علی خان میرا دایاں بازو ہیں۔ انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں دن رات ایک کر کے کام کیا ہے اور شاید کسی کو اندازہ نہیں کہ انہوں نے کتنی بھاری ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے۔ وہ اگرچہ نواب زادہ ہیں لیکن عام انسانوں کی طرح کام کرتے ہیں مجھے امید ہے کہ دوسرے نواب بھی ان کی پیروی کریں گے۔“

- Advertisement -

1945، 46ء کے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے مسلم لیگ کے امیدوار چننے کا کام قائدِ ملت کو سونپا گیا تو آپ کی سیاسی حکمتِ عملی نے یہاں بھی اپنا اثر دکھایا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی میں تیس تیس مسلم نشستیں حاصل کیں اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ 26 اکتوبر1946ء کو لیاقت علی خان ہندوستان کی عبوری حکومت کے فنانس ممبر ہو گئے۔ 28 فروری 1947ء کو چودھری محمد علی کے مشورے سے قائدِ ملت نے اپریل 1947ء سے مارچ 1948ء تک کے مالی سال کے لیے ایک بھاری ٹیکس کا بجٹ پیش کیا جو تاریخ میں ”غریب آدمی کا بجٹ“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں نمک ٹیکس کے خاتمے سے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ایک لاکھ سے زائد کاروباری سالانہ آمدنی پچیس فیصد کے حساب سے انکم ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ ہندو صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ تھا کہ وہ کروڑوں کما کر بھی حکومت کو بہت کم ٹیکس ادا کرتے تھے۔ سردار پٹیل نے مشتعل ہو کر ہاؤس کے اندر اور باہر مظاہرہ کی دھمکی دی تو قائدِ ملت نے کہا ”قانونی حد سے کوئی تجاوز نہیں کرسکتا۔“

قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی فلاح و بقا کے لیے قائدِ ملت نے انتھک کوششیں کیں۔ 1950ء میں ہونے والا ”لیاقت نہرو معاہدہ“ تاریخی حیثیت کا حامل ہے جس میں قائدِ ملت نے اقلیتوں کے حقوق کا ذکر کر کے بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھ قانونی طور پر باندھ دیے۔ اس کے بعد امریکہ کے دورے میں امریکی عوام کے سامنے قائدِ ملت نے پاکستان اور اس کے مقاصد کی وضاحت کر کے ایک بار پھر اپنا لوہا منوا لیا۔ آپ کی خارجہ پالیسی غضب کی تھی۔ اسلامی اتحاد کے سلسلے میں پیہم کاوشیں کرتے رہے کہ اس کے سبب اقتصادی اور تمدنی ترقی کی رفتار تیز ہو سکے۔

1951ء تک شام، ترکی، ایران اور انڈونیشیا سے اہم معاہدے ہو چکے تھے۔مصر، سعودی عرب اور یمن سے معاہدوں کے لیے پیش رفت جاری تھی، اگر قائدِ ملت شہید نہ ہوتے یہ معاہدے پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتے۔

قائدِ ملت کے سیاسی تدبر اور پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کا عمل مسلسل جاری تھا۔ قائدِ ملت نے ایک پریس کانفرنس میں پوچھے جانے والے سوال ”پاکستان، بھارت کے مقابلے میں چھوٹا ملک ہے اس کے اثاثے بھارت نے روک رکھے ہیں۔ پاکستانی افواج کے دستے بیرونی ممالک سے پوری طرح پاکستان میں وارد نہیں ہوئے ان حالات میں وہ بھارت کا جنگی چیلنج کیسے قبول کریں گے؟“ کے جواب میں قائدِ ملت نے سکون سے کہا
”جنگ محض اسلحہ کی بہتات اور افواج کی کثرت کے اصولوں پر نہیں لڑی جاتی۔ یہ بات درست ہے کہ بھارت کے پاس زیادہ اسلحہ اور افواج موجود ہیں اس کے اقتصادی وسائل ہم سے کہیں زیادہ ہیں مگر جنگوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں جنگ میں سپاہی کا جذبہ اور ایمان لڑتا ہے۔ “

27 جولائی 1951ء کو جہانگیر پارک میں دو لاکھ افراد کے عظیم الشان جلسۂ عام میں ایک بار پھر اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے قائدِ ملت نے اپنا مکا بلند کر کے کہا ”ہمارا نشان یہ ہے“ اخبارات میں کثیر تعداد میں لیاقت علی خان کا مکا دکھاتی تصویر چھپی۔

قائدِ ملت پاکستان کے دفاع کے لیے اپنا عملی کردار ادا کرتے رہے۔ مہاجروں کی آباد کاری کے سلسلے میں آپ کی کاوشیں لائقِ ستائش ہیں۔ بی آربی نہر آپ کی دور اندیشی اور حکمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بی آر بی نہر قائدِ ملت کے حکم پر ہی تعمیر کی گئی، نہر کا معائنہ کر کے آپ نے حکم دیا کہ نہر کو اور زیادہ چوڑا کیا جائے کیونکہ ایک دن یہ نہر لاہور کا دفاع کرے گی۔ 1965 ء کی جنگ میں یہ پیش گوئی صد فیصد درست ثابت ہوئی۔نوابزادہ لیاقت علی خان کی بصیرت اور دور اندیشی نے نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان کو بچایا۔ گویا خان لیاقت علی خان مدبر سیاستداں تھے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنے ماتحتوں اور مختلف امور سے متعلق افراد سے آپ نے ایسے کام کروائے جس سے پاکستان کا استحکام اور مفاد وابستہ تھا۔

14 اگست 1951ء کو جہانگیر پارک میں تقریر کرتے ہوئے قائدِ ملت نے فرمایا ”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ملت کی اس محبت اور اعتماد کا حق کس طرح ادا کروں؟ میرے پاس دولت نہیں ہے، میرے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے اور میں اس پر خوش ہوں کہ یہ چیزیں اکثر ایمان کی کمزوری کا باعث ہو جاتی ہیں۔ میرے پاس صرف زندگی ہے اور وہ بھی گزشتہ چار سال سے قوم کی نذر کر چکا ہوں۔ اس لیے میں صرف ایک وعدہ کر سکتا ہوں کہ اگر کبھی پاکستان کے دفاع اور اس کی آبرو کی خاطر قوم کو خون بہانا پڑا تو لیاقت کا خون اس کے ساتھ مل کر بہے گا۔“

اس کے ٹھیک دو ماہ دو دن کے بعد 16 اکتوبر 1951ء کی سہ پہر راوالپنڈی کے کمپنی باغ میں قائدِ ملت تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو حاضرینِ جلسہ نے پاکستان زندہ باد، قائدِ اعظم زندہ باد، قائدِ ملت زندہ باد، مسلم لیگ زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ابھی قائدِ ملت نے ابتدائی الفاظ ”برادرانِ اسلام“ ادا ہی کیے تھے کہ ایک بدبخت سید اکبر نے آپ کو گولی مار دی۔ تب قائدِ ملت کے سیاسی سیکریٹری نواب مہدی علی خان نے آپ کا سر اپنی گود میں لیا تو آپ نے کلمہ پڑھا۔ قائدِ ملت کے آخری الفاظ تھے”خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔“

قائدِ ملت نے اپنی زندگی پاکستان کے لیے وقف ہی نہیں کی بلکہ اس کی نذر کر دی۔

بالآخر ہوئے اپنی ملت پہ قرباں
بڑے آدمی تھے لیاقت علی خاں
بڑے سخت، دشوار جو مرحلے تھے
تدبر سے اپنے کیا ان کو آساں
وہ رہبر ہمارے وہ قائد ہمارے
لیاقت علی خاں، لیاقت علی خاں

اس کڑے وقت میں جب قائدِ ملت جیسے زیرک اور مخلص رہنما کی وطنِ عزیز کو سب سے زیادہ ضرورت تھی آپ کو سازش کے تحت قتل کر دیا گیا ۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ اس سازش کو بے نقاب نہیں کیا گیا۔

برسوں بیتے رئیسؔ امروہوی صاحب نے کہا تھا

سازشِ قتلِ لیاقت ایک معمہ بن گئی
وہ معمہ جس کا حل بے حد کٹھن بے حد شدید
مسکرا اے خاکِ مقتل، فاش ہو اے رازِ قتل
جاگ اے روحِ شہادت، بول اے روحِ شہید

(تحریر: شائستہ زریں)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں