تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

یومِ وفات: عارضۂ دل کے ساتھ مدھو بالا نے عشق کا آزار جان کو لگا لیا تھا!

شہناز، نرگس اور نوتن کی قسمت میں ‘انار کلی’ بننا نہیں لکھا تھا۔‌ فلم مغلِ‌ اعظم کا یہ کردار حسن کی دیوی مدھو بالا نے نبھایا اور ہندوستانی سنیما پر چھا گئیں۔‌ حسین اور دل کش سراپے کی مالک مدھو بالا کو ‘وینس آف انڈین سنیما’ کہا جانے لگا۔ آج ماضی کی اس مقبول ہیروئن کی برسی منائی جارہی ہے۔‌

فلمی دنیا کی مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا۔ اسی نام سے وہ پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ مشہور ہے کہ اسی دور کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی کے کہنے پر ممتاز نے اپنا فلمی نام مدھو بالا رکھا۔ فلمساز اور ہدایت کار کیدار شرما نے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلم نیل کمل میں بطور ہیروئن سائن کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ بعد میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنیں اور مغلِ اعظم کے بعد تو ہر طرف ان کی اداکاری اور حسن کے چرچے تھے۔ یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم کی عکس بندی کے دوران وہ بہت بیمار تھیں، لیکن انار کلی کے روپ میں انھوں نے لازوال اداکاری کی اور نام وَر فلم ساز کے آصف کی توقعات پر پورا اتریں۔ ہندوستانی سنیما میں کلاسک کا درجہ رکھنے والی اس فلم کے مرکزی کردار میں فلم ساز جیسا حسن و جمال، رنگ روپ، بانکپن، تمکنت اور دل کش لب و لہجہ چاہتے تھے، وہ مدھو بالا کو قدرت نے دے رکھا تھا۔ اداکارہ نے بیماری کے باوجود شوٹنگ کروائی اور بے مثال اداکاری کی۔

مدھو بالا فلم انڈسٹری کی وہ اداکارہ تھیں جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنیں‌ اور خوب شہرت پائی۔ روپ کی اس رانی نے نام و مقام تو بہت پایا مگر عمر تھوڑی پائی۔ مدھو بالا زندگی کی صرف 36 بہاریں دیکھ سکیں اور بدنصیبی دیکھیے کہ ان میں بھی نو برس ایسے تھے جب وہ بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں بستر تک محدود رہیں۔ مدھو بالا کے دل میں سوراخ تھا اور معالجین کا کہنا تھاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہوگا۔ 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہونے والی ممتاز کے والدین کو ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ اس کے آرام کا خاص خیال رکھنا ہوگا، وہ بہت زیادہ کام اور عام آدمی کی طرح‌ مسلسل جسمانی سرگرمی آسانی سے انجام نہیں دے سکے گی، لیکن ممتاز کو اس کے والد عطاء اللہ نے چھوٹی عمر میں‌ فلم نگری میں‌ کام دلوا دیا۔ یہاں‌ ممتاز کو آرام کرنے کا موقع کم ملتا تھا۔ وہ مسلسل شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔ ممتاز کے بہن بھائی گیارہ تھے اور والد نے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو فلمی دنیا میں‌ بھیج دیا۔ ممتاز کے والد عطاء اللہ لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، اور پھر وہ نوکری چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔ وہاں سے وہ اپنی بیٹی کو بمبئی لے گئے اور بھولی بھالی، من موہنی صورت والی ممتاز کو فلموں میں کام مل گیا۔ عطاء اللہ نے بیٹی کی کمائی سے گھر کی گاڑی کھینچنا شروع کی اور بہت جلد ممتاز کے حسن کا جادو مدھو بالا کے نام ایسا چلا کہ عطاء اللہ کے گھر گویا ہن برسنے لگا۔

دیکھا جائے تو مدھو بالا کے فلمی سفر کا آغاز، اپنے حسن اور دل کش سراپے کی بدولت فلم سازوں‌ کی نظر میں آنا اور پھر کام یابیاں‌ سمیٹتے چلے جانا ایک قابلِ‌ ذکر کہانی ہے، لیکن اس کا دکھ بھرا پہلو مدھو بالا کی بیماری، فلمی دنیا میں عشق اور شادی کے بعد بھی رنج و آلام اور روح پر لگنے والے زخم ہیں، جنھوں نے مدھو بالا کو موت کے منہ میں‌ دھکیل دیا۔ اداکارہ مدھو بالا 1969ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام آنسو بہاتے ہوئے گزرے۔

مدھو بالا اور دلیپ کمار کا عشق زوروں پر رہا۔ ایک وقت آیا جب یوسف خان المعروف دلیپ کمار اداکارہ پر نکاح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، لیکن مدھو بالا اپنے باپ کے خوف سے ایسا کوئی قدم اٹھانے کو فی الوقت تیّار نہ تھی۔ مدھو بالا کو کچھ وقت چاہیے تھا، لیکن دلیپ نہ مانے اور مدھو بالا سے ناتا توڑ لیا۔ دلیپ کمار سے مایوس، گھر کے حالات اور اپنی بیماری سے تنگ آئی ہوئی مدھو بالا یہ سوچ کر کشور کمار کا ہاتھ تھام لیا کہ وہ اسے زندگی کی طرف لوٹا سکے گا۔ انھوں نے 1960 میں شادی کی۔ لیکن گلوکار کشور کمار انھیں سکھ نہ دے سکے۔ انھیں مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ بیماری کس حد تک ان کی دلہن کو متاثر کرچکی ہے۔ بہرحال، وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ چند سال ہی زندہ رہ سکیں‌ گی۔ کشور کمار نے ایک بیمار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی ذات اور سکون کو ترجیح دی اور مدھو بالا کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا۔ وہ دو، تین ماہ میں ایک بار اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے چلے آتے تھے۔ کشور کمار کے اس سلوک نے شکستہ دل مدھو بالا کو مزید ہلکان کردیا۔ پرستار لاکھوں، چاہنے والے ہزاروں، فلم انڈسٹری میں ہر کوئی دیوانہ، ہر ایک عاشق مگر مدھو بالا ان سب کے ہوتے ہوئے بھی تنہا تھی۔

یہاں ہم ہندوستانی فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت کمال امروہوی جو عاشق مزاج اور حُسن پرست مشہور تھے، ان کی مدھو بالا سے پہلی ملاقات کا تذکرہ کررہے ہیں اور یہ واقعہ انیس امروہوی نے اپنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بنی۔

مدھو بالا کی دیگر مشہور فلموں میں دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے باکمال اداکاروں اور مقبول ترین ناموں کے ساتھ کام کیا۔

مدھو بالا نے 66 فلموں میں کردار نبھائے۔ کہتے ہیں کہ بولی وڈ میں ذاتی محافظ رکھنے کا سلسلہ مدھو بالا نے شروع کیا تھا۔ مدھو بالا ممبئی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

- Advertisement -