تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

یومِ‌ وفات: مدیحہ گوہر تھیٹر سے سماج تک

پاکستان میں فنونِ لطیفہ کے حوالے سے خدمات کے لیے مدیحہ گوہر کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ تھیٹر اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں‌ اداکارہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ مدیحہ گوہر 2018ء میں آج ہی دن انتقال کرگئی تھیں۔ انھیں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

مدیحہ گوہر سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا تھیں۔ 1956ء میں کراچی میں پیدا ہونے والی اس آرٹسٹ نے بعد میں‌ لاہور میں‌ سکونت اختیار کرلی تھی۔ مدیحہ گوہر کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام خدیجہ گوہر تھا جو ایک قلم کار تھیں، جب کہ مدیحہ گوہر کی ایک بہن فریال گوہر نے بھی اداکاری اور فن کی دنیا میں پہچان بنائی۔ مدیحہ گوہر کی شادی معروف ڈراما نویس اور پروڈیوسر شاہد محمود ندیم سے ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر 1984ء میں لاہور میں اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی تھی جو ملک کی صفِ اوّل کی تھیٹر کمپنی شمار ہوئی۔

زمانۂ طالبِ علمی ہی سے اداکاری اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے والی مدیحہ گوہر نے 1978ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ وہ مزید تعلیم کے لیے لندن چلی گئیں اور یونیورسٹی آف لندن سے تھیٹر کے فن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ء میں وطن واپس آنے کے بعد اجوکا تھیٹر کا سلسلہ شروع کیا۔ اس تھیٹر کے تحت مقامی لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے انھوں نے نوٹنکی کا تجربہ کیا جسے دیسی اور مغربی روایت کی آمیزش نے قبولیت کے درجے پر پہنچا دیا۔ اجوکا تھیٹر کے لیے انھوں نے تین درجن سے زائد ڈرامے لکھے اور بیشتر میں اداکاری بھی کی۔ ان کے ڈراموں کا مقصد لوگوں میں‌ شعور اجاگر کرنا اور اصلاح کرنا رہا۔ اجوکا تھیٹر کے فن کاروں نے پاکستان ہی نہیں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے علاوہ یورپ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے شہرت اور داد پائی۔

مدیحہ گوہر کے ڈراموں میں انسان دوستی اور صنفی مساوات کا موضوع نمایاں رہا جسے انھوں نے نہایت پُراثر اور معیاری انداز سے مقامی مزاج اور روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کیا۔

وہ حقوقِ‌ نسواں‌ کی علم بردار اور ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی پہچانی جاتی تھیں۔ 2006ء میں انھیں نیدرلینڈز میں ‘پرنس کلوڈ ایوارڈ’ سے نوازا گیا اور 2007ء میں وہ "انٹرنیشنل تھیٹر پاستا ایوارڈ” کی حق دار قرار پائی تھیں۔

مدیحہ گوہر کا شمار پرفارمنگ آرٹ کی دنیا کے ان آرٹسٹوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کو نظم و ضبط اور اصولوں کا پابند رکھا اور دوسروں سے بھی اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں‌ کی، وہ اس حوالے سخت گیر مشہور تھیں۔

Comments

- Advertisement -