یہ چند تازہ اور حقیقی واقعات ہیں جواب قصّہ بن کر ہر زبان پر جاری ہیں۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پہلے یہ واقعات ’’خبر‘‘ بنے اور پھر متعلقہ اداروں نے اس پر ’’ایکشن‘‘ بھی لیا۔
ایک واقعہ بہاول نگر کے پولیس اسٹیشن کا ہے، دوسرا بہاولپور کے ایک علاقے کا، تیسرا کراچی ایئر پورٹ پر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوا۔
بہاول نگر والے واقعے پر خاموشی ہی بھلی! یوں بھی وائرل ویڈیو کے تعاقب میں جو انکشافات ہوئے ہیں، اس نے ایک فریق کی مظلومیت کا تأثر زائل کردیا ہے۔ اس پر اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ سوشل میڈیا پر رائے عامّہ سے فریقین کو سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔ عسکری ادارے کے جوانوں کی جانب سے وردی پوش پولیس اہل کاروں پر تشدد عوام کی نظروں میں یقیناً ان کا وقار اور احترام مجروح کرتا ہے۔ اداروں کو اپنی حدود کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
ہم چلتے ہیں اُن تین دیگر واقعات کی طرف جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ عمومی طور پر ہماری نگراں ہے۔ یہ سب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے مرہونِ منت ہے جس میں سیکیوریٹی کیمروں کے علاوہ موبائل فونز بھی شامل ہیں۔ اب کوئی بھی مشکوک یا غلط حرکت، جرم یا سرِ راہ ہماری کوئی نیکی بھی ریکارڈ ہوجاتی ہے اور سوشل میڈیا کی زینت بھی بن سکتی ہے۔ اس بنیاد پر ہم ’’سزا یا جزا‘‘ پا سکتے ہیں۔ گویا موبائل فونز اور سوشل میڈیا کے دور میں کسی جرم کو چھپانا کچھ مشکل ضرور ہو گیا ہے۔
جب بھی کسی قسم کی ناانصافی، زیادتی پر مبنی واقعے یا صریح جرم کی ویڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو جہاں فوری طور پر عوام کا شدید ردّعمل سامنے آیا، وہیں وہ واقعہ ملکی ذرایع ابلاغ کا حصّہ بنا اور قانون کی نظروں میں بھی آگیا۔
اس کی تازہ مثال کراچی سے فیصل آباد جانے والی ملّت ایکسپریس کی مسافر مریم بی بی پر پولیس اہل کار کے تشدد کی ویڈیو اور موت کا معاملہ ہے۔ اس تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس اہل کار کو گرفتار کر لیا گیا، لیکن خاتون اب اس دنیا میں نہیں رہی اور اس کی موت معمّہ بنی ہوئی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عورت کے جسم پر کئی گہرے زخموں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی موت خود کشی ہے، حادثہ یا قتل۔ یہ وردی کی طاقت کا نشّہ تھا یا ’’برے ارادے‘‘ کی تکمیل میں ناکامی کا غصّہ اور اشتعال جس نے اسے پہلے ایک ناتواں پر ہاتھ اٹھانے پر مجبور کیا اور بعد میں اس عورت کی لاش ملی۔ مریم بی بی کے اہلِ خانہ کا دعویٰ ہے کہ اسے سات اپریل کو چلتی ریل گاڑی سے دھکا دیا گیاتھا اور یہ معاملہ قتل کا ہے۔ ان کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ ریل گاڑی کا پولیس کانسٹیبل مریم سے راستے میں ’’چھیڑ خانی‘‘ کر رہا تھا۔
ایک اور ویڈیو کراچی ایئرپورٹ کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہوائی اڈے کے بین الاقوامی پرواز سے آنے والوں کے لیے مخصوص دروازے پر ایک کم سن بچّی بیرونِ ملک سے آنے والے والد کو دیکھتے ہی اس کی جانب لپکتی ہے۔ لیکن وہاں موجود اے ایس ایف کا گیٹ انچارج اسے بالوں سے پکڑ کر پیچھے دھکیل دیتا ہے اور معصوم بچّی فرش پر گر جاتی ہے۔ یہ واقعہ 10 مارچ کا ہے جس کا ذمہ دار شاید وردی کے گھمنڈ میں مبتلا تھا۔ جذبات سے عاری یہ اہل کار معصوم بچّی سے یہ سلوک کرتے ہوئے بالکل ایک مشین یا روبوٹ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ واقعہ کی ویڈیو آنے کے بعد عوامی ردّعمل سامنے آیا اور تب سبحان نامی اہل کار کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی۔
چند ماہ قبل لاہور کے شہر اچھرہ میں ایک خاتون پولیس افسر کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جو مشتعل ہجوم سے اُس عورت کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں جس پر اس کے لباس کی وجہ سے توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس واقعے میں بھی ہم ایک باوردی پولیس افسر کو دیکھتے ہیں لیکن یہ اُن دو واقعات کے ذمہ دار پولیس اہل کاروں سے یکسر مختلف ہیں۔ ریل گاڑی اور ایئرپورٹ پر وردی پوش سفاکیت، ظلم اور بدسلوکی کی مثال بنے جب کہ خاتون پولیس افسر نے ذہانت اور فرض شناسی کی مثال قائم کی۔
پاکستان میں اکثریت موبائل فون اور انٹرنیٹ سے استفادہ کر رہی ہے۔ ان میں نیم خواندہ بلکہ ناخواندہ افراد بھی شامل ہیں جو سوشل میڈیا کے اس برق رفتار اور مثبت کردار کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس کی مثال یہ واقعات ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے۔ بلاشبہ رائے عامّہ کی تشکیل میں سوشل میڈیا کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کوئی بھی فرد معاشرتی اور حکومتی سطح پر کمال و نقص کی نشان دہی کرتے ہوئے کسی پلیٹ فارم پر مثبت اور تعمیری بحث کا آغاز کرتا ہے۔ لیکن اسی طاقت کو منفی سوچ کے حامل لوگ اور مفاد پرست بھی استعمال کررہے ہیں جن کا راستہ قانون اور متعلقہ ادارے روک سکتے ہیں۔