ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

میر حسن دہلوی:‌ سحرُالبیان کے مصنّف کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

میر حسن دہلوی اردو کے ایسے شاعر تھے جنھوں نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن کو ترک کرکے مثنوی کو اپنایا اور اسے درجۂ کمال کو پہنچا دیا۔ وہ اس گھرانے کے فرد تھے جس سے وابستہ شعراء نے بالخصوص مرثیہ گوئی میں نام پیدا کیا۔ آج میر حسن کا یومِ‌ وفات ہے۔

میر حسن دہلوی کا اصلی نام میر غلام حسن تھا۔ دہلی میں‌ پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے دہلوی کہلائے۔ ان کے والد میر غلام حسین ضاحک بھی اپنے زمانے کے معروف مرثیہ گو تھے۔ میر حسن کے پوتے میر ببر علی انیس کا نام اور ان کا اردو شاعری میں مقام و مرتبہ کسی حوالہ اور تعارف کا محتاج نہیں۔ اردو ادب کی تاریخ میں انھیں ایسا مرثیہ نگار کہا جاتا ہے جس کا اس صنف میں کوئی ثانی نہیں۔

میر حسن کے جد امجد مغل دور میں‌ عہد شاہجہانی کے اواخر میں ہرات سے آ کر دہلی میں بس گئے تھے۔ یہیں 1727 ء میں میر حسن پیدا ہوئے۔ ان کے والد کی طبیعت ہزل اور ہجو کی طرف مائل تھی اور اپنے زمانے کے معروف شاعر سودا سے ان کی خوب نوک جھونک چلتی تھی۔ میر حسن کی ابتدائی تعلیم گھر پر والد سے ہوئی۔ شعر و شاعری کا شوق لڑکپن سے ہوگیا تھا اور وہ خواجہ میر درد کی صحبت میں رہنے لگے۔ نوجوان میر حسن نے دہلی میں سخت ابتلاء کا زمانہ دیکھا۔ لوٹ مار مچی ہوئی تھی اور شرفاء دہلی چھوڑنے کو ترجیح دے رہے تھے۔ خود ان کے معاشی حالات ابتر تھے۔ تب میر ضاحک نے بھی اہل و عیال کے ساتھ دہلی کو خیر باد کہا۔ میر حسن خاصے رنگین مزاج اور حسن پرست تھے۔میر حسن دہلی سے فیض آباد پہنچے اور پہلے آصف الدّولہ کے ماموں سالار جنگ اور پھر ان کے بیٹے سردار جنگ مرزا نوازش علی خان کے ملازم ہو گئے۔ 1770ء میں جب آصف الدّولہ نے لکھنؤ کو پایۂ تخت بنایا تو سالار جنگ بھی اپنے متعلقین کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہو گئے جن کے ساتھ میر حسن کو بھی جانا پڑا۔ فیض آباد اس زمانہ میں میر حسن کی جمالیاتی حس کی تسکین کا سبب بنا جب کہ لکھنؤ میں نواب کے دربار میں پہنچنے تک ایک واقعہ بھی پیش آیا جس کے بعد میر حسن ڈیڑھ دو سال ہی زندہ رہے تھے اور 1785ء میں آج ہی کے دن ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

- Advertisement -

محمد حسین آزاد کے الفاظ میں: ’’زمانے نے اس کی سحر بیانی پر تمام شعراء اور تذکرہ نویسوں سے محض شہادت لکھوایا۔ اس کی صفائی بیان، لطفِ محاورہ، شوخیٔ مضمون اور طرزِ ادا کی نزاکت اور جواب و سوال کی نوک جھونک حدِ توصیف سے باہر ہے۔ زبان چٹخارے بھرتی ہے اور نہیں کہہ سکتی کہ یہ کون سا میوہ ہے۔‘‘

میر حسن نے سحرالبیان، گلزارِ ارم اور رموز العارفین کے علاوہ کئی دوسری مثنویاں بھی لکھیں۔ لیکن جو مقبولیت ان کی آخری مثنوی سحرالبیان کو ملی ویسی کسی مثنوی کو نہیں ملی۔ مثنوی شاعری کی وہ صنف ہے جس میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں، یہ سمجھ لیں کہ نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات سمیٹے جاتے ہیں اور اردو ادب کے کلاسیکی دور میں کئی نام ور شعرا نے خوب صورت مثنویاں کہی ہیں لیکن اس میں شک نہیں میر حسن دہلوی نے اپنی مثنوی سحرالبیان میں محاکات اور جزئیات نگاری کو درجۂ کمال پر پہنچایا۔ میر حسن کے چار بیٹے تھے اور سبھی شاعر تھے جن میں انیس کے والد میر مستحسن خلیق بھی مرثیہ گوئی میں مشہور ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں