کراچی: اسٹیٹ بینک کی تاریخ کی پہلی خودمختارمانیٹری پالیسی کمیٹی کاپہلافیصلہ،بنیادی شرح سودچھےفیصدکی سطح پربرقرار ہےگی۔
اسٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کی مانیٹری پالسی جاری کرتے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں اہم معاشی اظہاریوں میں بہتری کا سلسلہ جاری رہا، مہنگائی کا ماحول مناسب رہا، بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں تیزی آئی اور مالی استحکام کا عمل صحیح راستے پر گامزن رہا۔
اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) جولائی تا دسمبر 2015ء میں گھٹ کر 2.1فیصد ہوگئی جبکہ قیمتوں کی مجموعی نمو کو نیچے رکھنے میں تلف پذیرغذائی اشیا اور موٹر ایندھن نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس دوران سال بسال گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کا رجحان الٹ ہوگیا ہے۔ دسمبر 2015ء میں یہ مسلسل تیسرے مہینے بڑھ کر 3.2فیصد ہوگئی۔
اجناس کی عالمی قیمتوں کے بہتر امکانات ،ملکی طلب میں کسی قدر تیزی کی توقع اور رسدی رکاوٹوں میں مزید آسانی کے پیش نظر اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ مالی سال 16ء میں اوسط مہنگائی 3سے 4فیصد کے درمیان رہے گی۔ تاہم تیل کی عالمی قیمتوں کے رجحانات اور ملک میں اضافی غذائی اسٹاک (گندم، چاول اور چینی) کی بنا پر گرانی میں کمی آسکتی ہے۔
جولائی تا نومبر مالی سال 16ء کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی 4.4فیصد بڑھ گئی جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت میں یہ نمو 3.1فیصد تھی۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی کے شعبے کو زیادہ تر زری نرمی، اہم خام مال کی گرتی ہوئی بین الاقوامی قیمتوں، توانائی کی بہتر صورت ِحال، صارفی پائیدار اشیا کی ملکی طلب میں اضافے اور تعمیراتی سرگرمیوں کے بڑھنے سے فائدہ پہنچا۔کپاس اور چاول کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے مجموعی معاشی کارکردگی کے لیے کچھ مشکلات ہیں تاہم ان نقصانات کی کسی قدر تلافی دیگر فصلوں خصوصاً گندم کی آئندہ فصل کی بہتر کارکردگی سے ہوسکتی ہے۔ان حالات کے پیش نظر حقیقی جی ڈی پی پچھلے سال کی نمو کی رفتار برقرار رکھے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی بنا پر معاشی سرگرمیوں کی تیزی مالی سال 16ء کے بعد بھی جاری رہے گی۔
پاکستان کی مجموعی توازن ادائیگی کی صورت ِحال مالی سال 16ء کی پہلی ششماہی میں مستحکم ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ بیرونی جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوکر پچھلے برس کے تقریباً نصف تک پہنچ گیا جس کا سبب تیل کی عالمی قیمتوں میں مسلسل کمی اور کارکنوں کی ترسیلات ِزر کی مسلسل نمو تھی۔ سرمایہ اور مالی کھاتوں میں بھاری سرکاری رقوم کی آمد کے علاوہ بیرونی براہ راست سرمایہ کاری (FDI) میں کچھ بہتری آئی۔
اجناس کی عالمی قیمتوں کی سطح کم رہنے کے امکانات کے باعث بیرونی جاری کھاتے کا خسارہ گذشتہ سال سے کم رہنے کی توقع ہے۔آئی ایم ایف کے ای ایف ایف اور دیگر سرکاری ذرائع سے متوقع رقوم کے تسلسل سے مالی سال 16ء کی دوسری ششماہی میں سرمایہ اور مالی کھاتوں کا فاضل بڑھ سکتا ہے۔ توقع ہے کہ ان سے زر ِمبادلہ کے ذخائر پر سازگار اثر مرتب ہوگا۔مزید برآں چین سے بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں متوقع اضافے سے زر ِمبادلہ کے ذخائر کے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم برآمدات کے رجحانات میں تبدیلی کا انحصار بیرونی طلب اور عالمی منڈی میں کپاس کی قیمتوں پر ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کے جاری منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ملکی رکاوٹوں میں نرمی برآمدی مسابقت کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
مالی سال 16ء کی پہلی سہ ماہی میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 1.1فیصد تک محدود رہا جبکہ پچھلے برس کی اسی مدت میں 1.2فیصد تھا۔ مالی سال 16ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران ترقیاتی اخراجات میں نمایاں اضافے کے باوجود یہ کمی ٹیکس محاصل میں بہتری اور جاریہ اخراجات کو قابو میں رکھنے کے باعث آئی۔ مالی سال 16ء کے بقیہ مہینوں میں مالیاتی کھاتوں میں بہتری جاری رہ سکتی ہے۔ اگرچہ اکتوبر 2015ء میں اعلان کردہ اضافی ٹیکس اقدامات سے متوقع طور پر ایف بی آر کے محاصل کی نمو میں اضافہ ہوگا تاہم موجودہ اخراجات ہدف کے اندر رہنے کا امکان ہے۔
زر ِوسیع (ایم ٹو) کی سال بسال نمو میں تیزی آئی جس کی بڑی وجہ بینکاری نظام کے خالص بیرونی اثاثوں (NFA) میں نمایاں اضافہ تھا۔ نجی شعبے کے قرضے میں تیزی کے باوجودبینکاری نظام کے خالص ملکی اثاثوں (NDA)کی نمو سست ہوئی۔ واجبات کے حوالے سے امانتوں (ڈپازٹس) کی نمو میں کمی اور زیر ِگردش کرنسی میں تیزی باعث ِتشویش ہیں۔
مالی سال 16ء کی پہلی ششماہی کے دوران نجی شعبے کا قرض 339.8ارب روپے بڑھ گیا جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت میں یہ رقم 224.5ارب روپے تھی۔ زری نرمی، کارپوریٹ شعبے کی بہتر مالی صورت ِحال اور بہتر کاروباری ماحول کے اثر نے فرموں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ نہ صرف جاری سرمائے کی ضروریات کے لیے قرضے لیں بلکہ معینہ سرمایہ کاریوں کے لیے بھی۔ آگے چل کر توقع ہے کہ بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں بہتری، اہم صنعتوں کے اعلان کردہ توسیعی منصوبوں اور ساز گار زری حالات قرضے کی طلب میں مزید تیزی پیدا کریں گے۔
مالی سال 16ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران جدولی بینکوں سے حکومتی قرض میں اضافے کی وجہ سے سیالیت کسی قدر دباؤ میں رہی تاہم دوسری سہ ماہی میں محاصل کی بہتر وصولی اور بیرونی رقوم کی بروقت آمد کی بنا پر اس میں مسلسل بہتری آئی۔ اس کے علاوہ بازار ِمبادلہ میں دباؤ نے بھی بین البینک سیالیت کی ضروریات میں اتار چڑھاؤ پیدا کیا۔
مذکورہ بالا معاشی حالات کے پیش نظر اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو تبدیل نہ کرنے اور 6.0فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔