تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

امتحان سے قبل غبارِ خاطر کا مطالعہ!

غبارِ خاطر ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ایک انشاء پرداز، صاحبِ اسلوب ادیب تھے جن کا تحریر و تقریر میں کوئی ثانی نہیں۔ ان کی تصنیف غبارِ خاطر کا کی نثر شگفتہ اور پیرایہ دلنشیں ہے۔

مختار مسعود بھی اردو ادب میں‌ اپنے اسلوب اور تصانیف کی وجہ سے شہرت اور مقام رکھتے ہیں۔ اپنے عہد کی ممتاز ادبی شخصیات اور بڑے بڑے قلم کاروں‌ کی طرح‌ مختار مسعود بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور ان کی تحریروں میں سحر میں‌ رہے اور اس کا تذکرہ اپنی کتابوں‌ میں‌ کیا ہے۔ یہاں‌ ہم مولانا آزاد کے تعلق سے مختار مسعود کے قلم سے نکلے چند پارے نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

بی اے کا امتحان شروع ہونے سے پانچ دن قبل مولانا آزاد کی ’غبارِ خاطر ‘ ہاتھ آگئی جسے پڑھنا شروع کیا تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ پانچ روز بعد بی اے کا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ چوبیس گھنٹے بعد جب یہ کتاب پڑھ کے رکھی تو اُس کا جادو پوری طرح چڑھ چکا تھا۔

مختار مسعود لکھتے ہیں: ’’غبارِ خاطر ختم ہوئی۔ میں نے اُسے جہاں سے اُٹھایا تھا وہاں واپس رکھنا چاہا (تو) کتاب نے کہا (کہ اب) باقی باتیں امتحان کے بعد ہوں گی۔ اِس وقت تو (مجھے) تم سے ایک عہد لینا ہے کہ ’’میں مسمٰی مختار مسعود متعلم بی اے (سال آخر) بقائمی ہوش و حواس اور بہ رضا و رغبت یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر حالات سازگار ہوئے اور زندگی نے موقع دیا تو میں بالیدگی، شائستگی اور حکمت کے اِس سبق کو جو مجھے اردو اور فارسی کی اِس (لازوال) نثر نے دیا ہے قرضِ حسنہ سمجھتے ہوئے بقلم خود قسط وار اُتارنے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔

وہ اس کتاب کے مطالعہ کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’امتحان کا خوف دل سے جاتا رہا۔ جامعاتی اور رسمی تعلیم کا حکمت اور دانش سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ (اسی طرح ) فکر و نظر کا بھی تعلیمی اسناد (ڈگریوں) سے کوئی علاقہ نہیں۔ (اس) زور پر نہ کوئی اچھا شعر کہہ سکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے۔ نہ اچھی کہانی کہہ سکتا ہے اور نہ اچھی تصویر بنا سکتا ہے۔ اِن منزلوں کے راستے اور (ہی) ہیں۔ سنگلاخ اور دشوار گزار۔ تلوے چھلنی ہو جاتے ہیں۔ جسم پسینے پسینے اور چور چور ہو جاتا ہے (کیونکہ ) جسم ایک آرام طلب ذات ہے۔ ’کسب ِ کمال‘ کے لیے اُسے بہت بے آرام ہونا پڑتا ہے۔ تب جاکر ’عزیز جہاں شوی ‘ کی منزل آتی ہے۔ اور آدمی مڑ کر دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ ذرا سی بے آرامی اور اس کا اتنا بڑا صلہ!قدرت کتنی فیاض ہے۔ اور انسان کتنا نا سمجھ۔۔‘‘(حرفِ شوق)

Comments

- Advertisement -