اشتہار

"مسکرائیے!”

اشتہار

حیرت انگیز

مشتاق احمد یوسفی نے واقعات یا سانحات کو اپنے مزاح کی بنیاد نہیں بنایا بلکہ عام حالات، رویّوں اور معمول کی گفتگو پر شیریں اور شگفتہ تبصرے کیے ہیں۔

شستگی، ان کے مزاح کا خاص جوہر ہے۔ مزاحیہ ادب کے ایک دور کو ہم اگر کسی نام سے منسوب کرسکتے ہیں تو وہ یوسفی صاحب ہی کا نام ہے۔

مزاح لکھنے والے کو عام طور پر دو مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ ایک تو تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنا آسان نہیں‌ ہوتا اور دوسرا کسی کو اُس کی خامیوں کی طرف اس طرح متوجہ کرنا کہ دل شکنی نہ ہو۔ مشتاق یوسفی نے ان دونوں مشکلات کا حل یہ نکالا کہ اپنے طنز میں محبّت اور خیر خواہی کا رنگ شامل کرلیا اور کسی کی تحقیر نہیں کی۔

- Advertisement -

بقول ضمیر جعفری ”یوسفی کی جس ادا پر میں خاص فریفتہ ہوں، وہ اُس کی اتھاہ محبت ہے۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں۔“

یہاں ہم اردو کے اس ممتاز مزاح نگار کی تحریروں سے یہ ‘شکر پارے’ آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

"محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔”

"آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔”

"مرض کا نام معلوم ہوجائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے۔”

"انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔”

"خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔”

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں