یہ اس نادرِ روزگار کا تذکرہ ہے جن کو برصغیر پاک و ہند میں میں ایک محقق و مؤرخ، شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف کی حیثیت سے شہرت ملی۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کے لیے بڑا علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا جس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں محمد نجمُ الغنی خاں رام پوری کی جو آج ہی کے دن 1941ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔
محمد نجم الغنی خاں ایک علمی و ادبی شخصیت کے طور پر ہی نہیں پہچانے جاتے بلکہ وہ طبِ یونانی کے ماہر اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی مناسبت سے اکثر انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی لکھا گیا ہے۔
مولوی نجم الغنی خاں ریاست رام پور کے ایک علمی اور دینی گھرانے میں 8 اکتوبر 1859ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سر بر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں بھی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔ والد نے رام پور سے نکل کر ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو یہیں نجم الغنی خاں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بھی آغاز ہوا۔ 23 برس کے ہوئے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رام پور چلے آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں سند پائی۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد (دکن) بھی گئے جہاں علمی و ادبی کام کیا۔
محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ تاریخ سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخ لکھی۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں اور علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کا کلام دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔ حکمت اور طبابت کا پیشہ ان کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا اور اس شعبہ میں اپنے علم اور تجربات و مشاہدات کو انھوں نے کتابی شکل میں پیش کیا۔ ان کی کتابیں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ کے نام سے شایع ہوئیں۔ محمد نجم الغنی خاں نجمی کی دیگر کتب میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض)، مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔