تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

خبردار! خواتین کے لیے رات کی نوکری کینسر کا باعث

نیو یارک: امریکی ماہرین نے مسلسل رات کے اوقات میں ملازمت کرنے والے افراد اور خصوصی طور پر خواتین کر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طویل عرصے تک رات میں دفتری امور انجام دینے سے کینسر کے موذی مرض کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں بسنے والے ہزاروں افراد رات کے اوقات میں نوکری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاہم کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جہاں مجبوراً خواتین اور مرد حضرات کو نائٹ شفٹ کرنی پڑتی ہے۔

طبی ماہرین نے پہلی بار تحقیق کے حیران کُن نتائج بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’طویل عرصے تک رات کے اوقات میں ملازمت کرنے والی خواتین کو کینسر کا مرض لاحق ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں‘۔

تحقیق کے مطابق حیران کُن طور پر سب سے زیادہ کینسر کا خطرہ نرسز اور لیڈی ڈاکٹرز کو ہوتا ہے کیونکہ وہ مسلسل لمبے عرصے تک رات کے اوقات میں ڈیوٹی کے امور سرانجام دیتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق نائٹ شفٹ میں پیشہ وارانہ امور سرانجام دینے والی خواتین میں مجموعی طور پر دیگر کے مقابلے میں کینسر کے امکانات 19 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رات کے اوقات میں ڈیوٹی کرنے والی خواتین میں جلد کے کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت زیادہ جبکہ دیگر اقسام کا  کینسرز لاحق ہونے کا امکان ہے۔

محقق کاروں کا کہنا ہے کہ ’طویل مدت تک رات کے اوقات میں نوکری کرنے والی خواتین کو 11 اقسام کے کینسر لاحق ہوسکتے ہیں جن میں چہرے کا کینسر 41 فیصد، بریسٹ کینسر کے 32، معدے کے 18 پھیپھڑوں کے 28 جبکہ آنتوں کے کینسر کے 35 فیصد امکانات بڑھ جاتے ہیں‘۔

ماہرین کے مطابق ’رات کے اوقات میں نوکری کرنے والے افراد تمباکو نوشی کی بری لت میں مبتلا ہوتے ہیں اور اُن کے کھانے پینے کے اوقات بھی ٹھیک نہیں ہوتے جس کے باعث اُن کی زندگی متاثر ہوتی ہے‘۔

طبی ماہرین نے امریکا، آسٹریلیا، یورپ اور ایشیا کے مختلف ممالک کے 11 لاکھ سے زائد کیسز کا مطالعہ کیا جس کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ کینسر کے سب سے زیادہ مریض نارتھ امریکا میں موجود ہیں جن کی تعداد 3 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -