اشتہار

نکولائی گوگول کا تذکرہ جس کا قلم روسی سماج کو آئینہ دکھاتا رہا

اشتہار

حیرت انگیز

گوگول کو روسی ادب میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا، اُسے سمجھنے کے لیے مشہور ناول نگار دوستوفسکی کا یہ جملہ کافی ہے، ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

اوور کوٹ بلاشبہ سلطنتِ روس کے اس عظیم قلم کار کی شاہ کار کہانی ہے۔ اوور کوٹ کی کہانی ایک سرکاری کلرک کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کہانی ایک غریب آدمی کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور اس کی تذلیل کی کہانی ہے۔ یہ سماج میں اُن لوگوں کی نفرت کا سامنا کرتا ہے جو خود کو طبقۂ اعلیٰ اور اشرافیہ کا حصّہ سمجھتے ہیں۔ گوگول کا کمال یہ ہے اس نے ایک کلرک کی توہین اور بے عزّتی کو اس طرح بیان کیا کہ گویا یہ سماج کے تمام انسانوں کی تذلیل اور بے توقیری ہے۔

نکولائی گوگول کا آبائی وطن یوکرین تھا جو اُس دور میں روسی سلطنت کا حصّہ تھا۔ سرد جنگ کے بعد یوکرین بھی متحدہ روس سے الگ ہوگیا اور خود مختار ملک بنا۔ بادشاہت کے زمانے میں یہاں 1809ء میں نکولائی واسیلیوچ گوگول نے آنکھ کھولی۔ وہ گوگول کے نام سے معروف ہے۔ اج اس ناول نگار کا آبائی وطن روس کی جانب سے جنگ کے بعد تباہی دیکھ رہا ہے۔ گوگول نے اپنی زندگی ہی میں روسی سلطنت میں ممتاز ادیب اور ناول نگار کے طور پر شہرت سمیٹ لی تھی۔ اس نے سماج میں غلامی کا دور دورہ دیکھا اور سلطنت میں عوام کو مختلف طبقات میں‌ بٹا ہوا پایا تھا۔ زمین دار، اُن کے ساتھ کسان اور محنت کش طبقات اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کی زد پر تھے۔ ظلم کی مختلف شکلیں، جبر اور استحصال عام تھا۔ گوگول نے اپنے دور میں بہت سے ایسے معاشرتی امراض دیکھے جو استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ حساس طبع گوگول نے قلم تھاما اور ان کہانیوں کو عام کرداروں‌ کے ساتھ گہرے طنز اور مزاح کی چاشنی دے کر قارئین کے سامنے رکھنا شروع کیا۔

- Advertisement -

وہ 15 برس کا تھا جب اس کے والد کا انتقال ہوا۔ وہ اُس زمانے میں‌ بطور ڈرامہ نویس تھیٹر سے منسلک تھے۔ گوگول کے چند دیگر اعزّہ بھی تھیٹر اور فنونِ‌ لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے وابستہ تھے۔ نکولائی گوگول نے انہی سے متاثر ہو کر فن و تخلیق کا سفر شروع کیا تھا۔ اسے اداکاری کا شوق بھی تھا۔ نکولائی گوگول کو حصولِ تعلیم کے زمانے میں ہوسٹل میں رہنا پڑا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کرکے سینٹ پیٹرس برگ کا رخ کیا۔ اسے سرکاری نوکری کی خواہش تھی جس کے حصول میں وہ ناکام رہا۔ تب اس نے تھیٹر پر بطور اداکار قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ گوگول نے اس مقصد کے لیے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر سے کچھ رقم چرا کر نکل پڑا۔ وہاں‌ اسے ایک کم اجرت کی شاہی نوکری مل گئی، لیکن جلد ہی اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔ اس عرصہ میں وہ کہانیاں لکھنے لگا تھا اور اب خیال آیا کہ انھیں کتابی شکل میں قارئین تک پہنچائے۔ وہ یہ توقع نہیں‌ رکھتا تھا کہ اُسے اس قدر پسند کیا جائے گا اور اس کتاب کی بدولت وہ ملک گیر شہرت حاصل کر لے گا۔ لیکن قسمت اس پر مہربان تھی۔ اس کی کہانیاں 1831ء اور 1832ء میں‌ قارئین کی بڑی تعداد تک پہنچیں اور لوگوں‌ نے اسے بہت سراہا۔

گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ کو اپنی جانب متوجہ پایا تو 1835ء میں‌ اس ن ے قزاقوں‌ پر اپنا تاریخی ناول تاراس بلبا بھی شایع کروایا اور یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ یہی نہیں بلکہ بعد کے برسوں‌ میں اس ناول کا شمار روسی ادب کے شاہ کار ناولوں‌ میں کیا گیا۔ اگلے سال نکولائی گوگول نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ عوام نے تو اسے بہت پسند کیا لیکن اس ناول پر وہ سلطنت میں‌ زیرِ عتاب آیا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا اور یہ ناول بھی روسی ادب میں ایک شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار اور لائقِ‌ ملامت تصوّر کرنے لگا۔ اس کیفیت میں 1852ء میں‌ گوگول نے اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا تھا اور اسی برس 21 فروری کو چل بسا۔

آج اٹھارہویں صدی کے اس ادیب کا یومِ وفات ہے جس نے روزمرّہ کی زندگی کو اپنے نقطۂ نگار سے دیکھا اور اپنے انداز سے پیش کیا اس کی کہانیوں میں سماج اور افراد پر گہرا طنز اور ایسا مزاح ملتا ہے جس کا اثر آج بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کہانیوں میں اثر پذیری کی بڑی وجہ گوگول کی وہ حقیقیت نگاری ہے جسے اس وقت روایات سے انحراف اور سماج سے بغاوت تصوّر کیا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں