تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

’بیٹی کی تصویر کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ہمیں انصاف مل گیا‘

نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں چلتی بس میں اجتماعی زیادتی اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بننے والی جیوتی کے 4 مجرمان کو سزائے موت کے بعد جیوتی کی والدہ کا کہنا ہے کہ بالآخر درندے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق دہلی بس گینگ ریپ کے 4 مجرمان کو گزشتہ روز تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی، مجرموں کی رحم کی اپیل آخری وقت میں مسترد کردی گئی تھی۔

پھانسی کے وقت تہاڑ جیل کے باہر موجود جیوتی، جسے نربھیا کہا جاتا رہا، کے والدین موجود تھے۔ نربھیا کی ماں کی آنکھوں میں آنسو، اور چہرے پر فتح کی مسکراہٹ تھی، اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے وہ کہہ رہی تھیں، بالآخر درندے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

51 سالہ آشا دیوی کا کہنا تھا کہ سات سال بعد ان کی بیٹی کو انصاف مل گیا، ’میں نے اپنی بیٹی کی تصویر کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ہمیں انصاف مل گیا‘۔

نربھیا کے والد نے کہا کہ بھارت کی عدالتوں پر میرا اعتماد پھر سے بحال ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیں: ہر 15 منٹ میں ایک بھارتی خاتون زیادتی کا شکار

یاد رہے کہ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی 23 سالہ طالبہ جیوتی سنگھ دسمبر 2012 میں اپنے ایک دوست کے ساتھ رات کے وقت سنیما سے گھر واپس جارہی تھیں جب خالی بس میں موجود اوباش مردوں نے اسے اجتماعی زیادتی اور انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا۔

مجرمان نے جیوتی کے دوست پر بھی تشدد کر کے اسے بس سے اتار دیا بعد ازاں زندہ درگور جیوتی کو سڑک پر پھینک دیا، جیوتی پر اس قدر بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا کہ اس کی انتڑیاں جسم سے باہر نکل آئی تھیں۔

جیوتی چند دن اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑنے کے بعد سنگاپور میں دم توڑ گئی جہاں اسے علاج کی غرض سے منتقل کیا گیا تھا، جیوتی کے بہیمانہ قتل اور زیادتی نے پورے بھارت میں آگ لگا دی اور ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔

کیس میں 6 افراد کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا جن میں سے ایک ملزم کو کم عمر ہونے کی بنیاد پر مختصر حراست کے بعد رہا کر دیا گیا تھا، ایک ملزم نے جیل میں خودکشی کرلی تھی، بقیہ چاروں مجرمان کو بالآخر 7 سال بعد سزائے موت دے دی گئی۔

Comments

- Advertisement -