تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

تینوں ہوٹل میں داخل ہوئے تو ان کے قدم بے اختیار رک گئے۔ ’’واؤ، اتنا شان دار!‘‘ فیونا کے منھ سے نکلا۔

گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

’’ارے یہاں تو جل پریاں اور ساحلی چیزیں نظر آ رہی ہیں، لگتا ہے پورا ہوٹل انھی چیزوں سے بنا ہے۔‘‘ جبران بھی حیرت زدہ تھا۔

انھوں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ حیرت انگیز ہوٹل کا فرش تھا، جو ہلکے نیلے رنگ کے شیشے کا تھا اور اس کے نیچے سمندر کا پانی تھا۔ دانیال ایک دم سے فرش پر بیٹھ گیا اور بولا: ’’میں نے یہاں جیلی فش دیکھی ابھی۔‘

جبران نے کہا: ’’ایسا لگ رہا ہے میں سمندر پر چہل قدمی کر رہا ہوں، کتنا عجیب ہے یہ!‘‘

وہ جیسے ہی برآمدے کی طرف بڑھے، فیونا بھی یہ دیکھ کر پرجوش ہو گئی کہ وہاں ایک ماربل سے بنی ایک خوب صورت پہاڑی موجود تھی، وہاں ہزاروں کی تعداد میں پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی جل پریاں تھیں جو پانی سے بلبلوں کی طرح اچھل کر پھر پانی میں ڈوب جاتی تھیں۔ وہاں جھینگے، کیکڑے، ڈولفنز، سیپیاں اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ وہاں سب چیزں پلاسٹک کی بنی تھیں لیکن اتنی مہارت اور خوب صورتی سے بنائی گئی تھیں کہ بالکل اصلی لگ رہی تھیں۔ ایک جگہ چھوٹے سے جوہڑ میں سفید اور گلابی رنگ کے کنول کھلے ہوئے تھے، ہر پھول پر شیشے کا ایک مینڈک بیٹھا ہوا تھا۔ جوہڑ پر ایسے بلبلے اڑ رہے تھے جو پلاسٹک ہی کے بنے تھے اور ان کے اندر بھی چھوٹے چھوٹے مینڈک بند تھے۔

انھوں نے دیکھا کہ برآمدے میں پڑے فرنیچر پر بھی سمندری جانداروں کی تصاویر منقش تھیں، صوفے کی پشت ایک ہشت پا کی طرح بنی ہوئی تھی جب کہ اس کی آٹھ عدد ٹانگوں سے صوفے کے ہتھے بنائے گئے تھے۔ فیونا حیرت زدہ بڑبڑائی: ’’کیا تم دونوں نے ایسی چیزیں کبھی خواب میں بھی دیکھی ہیں، میں نے تو کبھی نہیں دیکھیں۔ میں تو ممی کو بھی یہاں لانا چاہوں گی، انھیں سمندر بہت پسند ہے۔‘‘
فیونا کو لگا کہ جگہ بہت مہنگی لگ رہی ہے، اچھی خاصی رقم خرچ ہوگی، وہ دونوں کو انتظار کرنے کا کہہ کر ایک طرف چلی گئی۔ ایسے میں دانیال کی نظر کھانے کے کمرے پر گئی تو وہاں دوڑ پڑا، جبران اسے روکتے روکتے رہ گیا، پھر خود بھی اس کے پیچے چلا گیا۔ دانیال برف کے ایک بہت بڑے مجسمے کے سامنے کھڑا تھا، یہ ایک جل پری کا مجسمہ تھا جس کے گرد ڈولفنوں کے مجسمے کھڑے تھے۔ کھانے کے اس کمرے میں جگہ جگہ شیشے کے بند پیالے رکھے گئے تھے جن میں کنول تیر رہے تھے۔ جبران نے ایک کے اندر قریب سے دیکھا تو اس کے اندر برف کی چھوٹی چھوٹی گیندیں تیرتی نظر آئیں، ہر گیند کے اندر رنگین مچھلی بند تھی۔

’’یہ سب کیسے بنایا ان لوگوں نے؟‘‘ جبران کے منھ سے حیرت سے نکلا۔ ’’یہ دیکھ کر تو مجھے پیاس لگنے لگی ہے۔‘‘

دانیال نے مڑ کر اس کی طرف گھورا: ’’تم لیموں کے شربت کے علاوہ تین گلاس پانی بھی پی چکے ہو، اور اب بھی پیاس لگ رہی ہے؟‘‘

اسی وقت فیونا بھی کھانے کے کمرے میں چلی آئی، اس نے بھی گھوم پھر وہ عجیب چیزیں دیکھیں۔ دانیال نے اس سے کرائے پر کمرہ لینے کا پوچھا، فیونا نے کہا: ’’لے لیا لیکن بہت مہنگا ملا ہے، یہ جگہ ہے بہت خوب صورت۔ انکل اینگس کو معلوم ہوگا تو وہ ناراض ہوں گے۔ اس مرتبہ میں نے تیسری منزل پر کمرہ لیا ہے، اور ہاں ان لوگوں کے سامنے زیادہ مت رہا کرو، ہمارے پاس پاسپورٹس نہیں ہیں، اس نے کہا کہ وہ ہمارے والدین کا انتظار کریں گے۔‘‘

’’لو، یہاں تو کھانے کی پلیٹوں میں بھی نیلے رنگ کے ٹکڑے لگے ہوئے ہیں اور ان میں چھوٹی رنگین مچھلیاں ہیں۔‘‘ دانیال نے ایک پلیٹ اٹھا کر کہا۔

فیونا نے بے اختیار کہا: ’’یہ پلیٹ تو بہت خوب صورت ہے، میں نے اسکاٹ لینڈ میں ایسی پیاری پلیٹ نہیں دیکھی، اتنا نفیس ہے کہ اس میں تو کھانا کھانے کو بھی جی نہیں کرتا۔‘‘

ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مچھلیاں پلیٹ میں تیر رہی ہوں، بالکل درمیان میں اسٹار فش تھی۔ پلیٹ نہیں تھی بلکہ آثار قدیمہ کا کوئی نادر نمونہ تھا، جسے صرف سجاوٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔ ایسے میں جبران نے کہا کہ پتا نہیں ہمارا کمرہ اندر سے کیسا ہوگا اور وہاں کیا کیا دیکھنے کو ملے گا؟ باقی دونوں بھی چونک اٹھے اور کہا کہ چلو چل کر دیکھتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں وہ تیسری منزل پر اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ فیونا نے کارڈ کی سے دروازہ کھولا اور تینوں ایک دوسرے کے پیچھے اندر داخل ہو گئے۔

(جاری ہے)

Comments

- Advertisement -