سروں کے سلطان استاد نصرت فتح علی خاں کی آج 69 ویں سالگرہ ہے ‘ آپ اپنی وفات کے لگ بھگ20 سال بعد بھی بے پناہ پسند کیے جانے والے اور سنے جانے والے موسیقار ہیں، کانوں میں رس گھولتے ان کے سریلے نغموں نے انہیں آج بھی ہمارے درمیان زندہ رکھا ہوا ہے۔
استاد نصرت فتح علی خاں 13 اکتوبر 1948ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام فتح خاں تھا وہ خود بھی نامور گلوکار اور قوال تھے۔ نصرت فتح علی خاں بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
ان کے آباؤ اجداد نے کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص قوالی کے حوالے سے بڑا نام کمایا تھا اور انہیں مقبول بنانے میں ان کے والد استاد فتح علی خاں نے بے پناہ کام کیا تھا۔ نصرت فتح علی نے موسیقی کی ابتدائی تربیت اپنے والد اور اپنے تایا استاد مبارک علی خاں سے حاصل کی اور اپنی پہلی باقاعدہ پرفارمنس اپنے والد کے انتقال کے بعد استاد مبارک علی خان کے ساتھ گاکر دی۔
وہ طویل عرصے تک روایتی قوالوں کی طرح گاتے رہے مگر پھر انہوں نے اپنی موسیقی اور گائیکی کو نئی جہت سے آشنا کیا اورپاپ اور کلاسیکی موسیقی کو یک جاں کردیا۔
نصرت فتح علی خاں کی عالمی شہرت کا آغاز 1980ءکی دہائی کے آخری حصے سے ہوا جب پیٹر جبریل نے ان سے مارٹن اسکورسس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ کا ساؤنڈ ٹریک تیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، یہ ان کے فنی سفر کا نیا رخ تھا۔ 90 کی دہائی میں انہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں اپنی موسیقی کی دھوم مچادی۔ انہیں کئی بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دینے اور ان میں گائیکی کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔
نصرت فتح علی خاں کی معروف قوالیاں*
ٹائم میگزین نے 2006 میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال اپنے کریئر کے آغاز میں اس فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
قوال کی حیثیت سے ایک سو پچیس آڈیو البم ان کا ایک ایسا ریکارڈ ہے، جسے توڑنے والا شاید دوردورتک کوئی نہیں، جن کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی، دم مست قلندر مست ، علی مولا علی ، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، میرا پیاگھر آیا، اللہ ہو اللہ ہو اور کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا، جیسے البم ان کے کریڈٹ پر ہیں، ان کے نام کے ساتھ کئی یادگار قوالیاں اور گیت بھی جڑے ہیں‘ اس کے علاوہ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ۔
خاں صاحب کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی، جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا مینگیشکر، آشا بھوسلے اور اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔
یورپ میں ان کی شخصیت اور فن پر تحقیق کی گئی اور کئی کتابیں لکھی گئیں، 1992 ء میں جاپان میں شہنشاہ قوالی کے نام سے ایک کتاب شائع کی گئی۔
قوالی کے اس بے تاج شہنشاہ نے دنیا بھر میں اپنی آواز کا جادو جگایا ۔حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا‘ اس کے علاوہ دیگر کئی ممالک اور اقوام متحدہ نے ان کی شاندار فنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں متعدد سرکاری اعزازات سے نوازا۔
جگر و گردوں کے عارضہ سمیت مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے باعث صرف 49سال کی عمر میں 16اگست 1997 کو شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خاں لندن کے ایک اسپتال میں وفات پاگئے، ان کی یادیں آج بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔