اشتہار

ہزاروں لوگوں نے ملبے میں پیدا ہونے والی شامی بچی آیت کو گود لینے کی پیشکش کر دی

اشتہار

حیرت انگیز

حلب: شام میں ملبے تلے پیدا ہونے والی یتیم و یسیر نوزائیدہ بچی آیت کو دنیا بھر سے ہزاروں لوگوں نے گود لینے کی پیشکش کر دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق شمال مغربی شام کے ایک قصبے جندیرس کے ایک پانچ منزلہ اپارٹمنٹ کے ملبے تلے اپنی والدہ عفرا ابو ہادیہ کے ہاں پیدا ہونے والے بچی آیت کو ہزاروں افراد نے گود لینے کی پیش کش کی ہے۔

جب آیت کو ملبے سے نکال کر بچایا گیا، تو اس وقت بھی وہ اپنی کی ماں کے ساتھ آنول نال سے جڑی ہوئی تھی۔ آیت نے اس زلزلے میں اپنے ماں، باپ کے علاوہ چاروں بہن بھائیوں کو بھی کھویا، بتایا جاتا ہے کہ آیت زلزلے کے بعد تقریباً 7 گھنٹے بعد پیدا ہوئی۔

- Advertisement -

بی بی سی کے مطابق آیت ان دنوں اسپتال میں طبی نگہداشت میں رکھی گئی ہے، اس کی دیکھ بھال کرنے والی ماہر اطفال ہانی معروف نے میڈیا کو بتایا کہ آیت پیر کو بہت بری حالت میں لائی گئی تھی، اس کے گلے پر زخم تھے، وہ بالکل ٹھنڈی پڑ چکی تھی اور بمشکل سانس لے رہی تھی، تاہم اب اس کی حالت بہتر ہے۔

آیت کے بچاؤ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں، فوٹیج میں ایک شخص کو عمارت کے منہدم ہونے والے ملبے سے دوڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا، اور اس کی گود میں ایک نوزائیدہ بچہ تھا۔

اس وقت وہاں بچی کا دور کا ایک رشتہ دار خلیل السوادی بھی موجود تھا، انھوں نے نوزائیدہ کو شام کے شہر عفرین میں ڈاکٹر معروف کے پہنچایا۔

سوشل میڈیا پر اب ہزاروں لوگوں نے اس بچی کو گود لینے کی پیش کش کرتے ہوئے اس سلسلے میں تفصیلات طلب کی ہیں، تاہم ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے بڑے چچا صلاح البدران اسے گود لیں گے۔

ایک شخص نے کہا ’’میں اسے اپنانا اور اسے ایک باوقار زندگی دینا چاہوں گا۔‘‘ ایک کویتی ٹی وی اینکر نے کہا ’’میں اس بچے کی دیکھ بھال اور گود لینے کے لیے تیار ہوں، اگر قانونی طریقہ کار مجھے اجازت دیتا ہے۔‘‘

ملبے میں پیدا ہونے والی شامی بچی کا نام کیا رکھا گیا؟

اسپتال کے منیجر خالد عطیہ کا کہنا ہے کہ انھیں دنیا بھر سے ایسے لوگوں کی درجنوں کالیں موصول ہوئی ہیں جو آیت کو گود لینا چاہتے ہیں۔

بچی کو فی الوقت ڈاکٹر خالد کی بیوی دودھ پلا رہی ہیں، جن کی اپنی بچی آیت سے صرف 4 ماہ بڑی ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ آیت کے آبائی شہر جندیرس میں اب بھی لوگ منہدم عمارتوں میں اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے ہیں، وہاں موجود ایک صحافی محمد العدنان نے بی بی سی کو بتایا کہ صورت حال بتاہ کن ہے، ملبے کے نیچے بہت سے لوگ اب بھی دبے ہوئے ہیں، ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جنھیں ہم نہیں نکال سکے ہیں۔

انھوں نے اندازہ لگاتے ہوئے بتایا کہ قصبے کا 90 فی صد حصہ تباہ ہو چکا ہے اور اب تک کی زیادہ تر مدد مقامی لوگوں کی طرف سے آئی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں