تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

ریو 2016: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

آپ کے خیال میں کسی ہوٹل میں کتنا کھانا ضائع ہوتا ہوگا؟

سینکڑوں ٹن؟ ہزاروں ٹن؟

آج کل برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اولمپک مقابلے چل رہے ہیں جس میں شرکت کے لیے 18 ہزار کھلاڑی، کوچ اور حکام شریک ہیں اور ان کی رہائش ’اولمپک ویلج‘ میں ہے۔

rio-2
اولمپک ویلج

آپ کے خیال میں ان 18 ہزار افراد کا پیٹ بھرنے کے بعد وہاں کتنا کھانا ضائع ہوتا ہوگا؟

یقیناً اتنی مقدار جسے آپ شمار بھی نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھیں: برازیل کی فضائی و آبی آلودگی کے باعث کھلاڑیوں کی صحت کو سخت خطرہ

اب اس مقدار کو 3 سے ضرب دے دیں یعنی ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور عشائیہ۔ ضائع شدہ کھانے کی مقدار یقیناً اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہوگی۔

برازیل میں ایک طرف تو 21.4 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، صرف ریو ڈی جنیرو میں 56 ہزار افراد بے گھر ہیں اور سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان میں سے 340 بچے ہیں، جبکہ دوسری طرف اولمپک ویلج میں صرف ایک دن میں 12 ٹن خوراک ضائع ہورہی ہے۔

rio-1

اب اس کھانے کا کیا کیا جائے؟ معروف اطالوی شیف مسیمو بترا نے اس کا بہترین حل تجویز کیا۔

بترا اٹلی میں ایک ریستوران اوشتریا فرانچسکانا کے مالک ہیں اور رواں سال ان کے ریستوران کو دنیا کے بہترین ریستوران کا اعزاز مل چکا ہے۔ وہ آج کل اولمپک میں شریک کھلاڑیوں کو بہترین ذائقوں سے روشناس کروانے کی کوششوں میں مصروف ماہرین اور شیفس کی رہنمائی کے لیے ریو ڈی جنیرو میں مقیم ہیں۔

انہوں نے ضائع شدہ کھانے کو ری سائیکل کر کے بے گھر افراد تک پہنچانے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کو بے حد پسند کیا گیا اور اس پر کام شروع کردیا گیا جس کے بعد ایک روز قبل ضائع شدہ کھانے کو مختلف مشینوں کے ذریعہ پیک کر کے اولمپک ویلج کے آس پاس بے گھر افراد میں تقسیم کردیا گیا۔

rio-3

اس سے قبل یہ کھانا کچرے اور کوڑے دانوں میں پھینکا جارہا تھا اور اس کی وجہ اعلیٰ حکام سے اس منصوبے کی منظوری اور وسائل کی عدم دستیابی تھی۔

بترا پچھلے 2 مہینوں سے اس خیال پر کام کر رہے تھے اور ان کے مطابق برازیلین صدر ڈیلما روسیف نے اس منصوبے کے لیے حامی بہت رد و کد کے بعد بھری۔ ’شاید وہ ہم پر بھروسہ نہیں کر پا رہی تھیں‘ انہوں نے بتایا۔

ان کے اس کام میں ا کئی امریکی شیفس بھی شامل ہیں جبکہ کئی افراد رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔

ایک اندازے کے بعد اولمپک کھیلوں کے اختتام تک 19 ہزار کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے جا چکے ہوں گے۔

Comments

- Advertisement -