تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

گاؤں دیہات میں بیت الخلا کی عدم دستیابی ۔ کیا وجہ صرف غربت ہے؟

32 سالہ رحمت بی بی نے اپنی جھونپڑی کے دروازے سے باہر دیکھا، باہر گھپ اندھیرا تھا اور گہرا سناٹا۔ ایک لمحے کو اس کا دل گھبرایا لیکن باہر جانا بھی ضروری تھا، ضرورت ہی کچھ ایسی تھی۔

رحمت بی بی کچھ دیر برداشت کرتی رہیں لیکن جب معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہونے لگا تو مجبوراً اس نے برابر میں سوئی اپنی بہن کو جگایا، بہن بمشکل آنکھیں کھول کر اس کی بات سننے کی کوشش کرتی رہی، پھر معاملے کو سمجھ کر وہ اٹھ گئی، دونوں بہنیں باہر گئیں جہاں گھر سے کچھ دور جھاڑیاں ان کی منزل تھیں۔ جھاڑیوں کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد دونوں بہنیں واپس جھونپڑی میں تھیں لیکن اس دوران دونوں جیسے کئی میل کا سفر طے کر آئی تھیں۔

رحمت بی بی پاکستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 22 لاکھ افراد کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں، یعنی ملک کی 13 فیصد آبادی بیت الخلا سے محروم ہے۔

یہ افراد زیادہ تر گاؤں دیہات اور کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ رحمت بی بی کا گاؤں بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ گاؤں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع ہے، اس کا نام مٹھو گوٹھ ہے، اور یہاں جا کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کئی صدیاں پیچھے چلی گئی ہو۔

صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں واقع یہ گاؤں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔

مٹھو گوٹھ 100 گھروں پر مشتمل گاؤں ہے

گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔

طویل عرصے سے آباد یہاں کے لوگوں کے معاشی حالات یا گاؤں کے مجموعی حالات میں بظاہر تو کوئی تبدیلی نہیں آئی، البتہ حال ہی میں آنے والی ایک تبدیلی ایسی ضرور ہے جس کی خوشی یہاں کی خواتین کے چہروں پر چمکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ تبدیلی ہے، خواتین کے لیے واش رومز کی تعمیر۔

اس گاؤں میں صرف ایک واش روم تھا جو گاؤں کی مسجد کے باہر بنا ہوا تھا اور یہ مردوں کے زیر استعمال رہتا تھا۔ نماز کے لیے وضو کے علاوہ اسے عام اوقات میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

کچھ سال قبل جب یہاں طوفانی بارشوں کے سبب سیلاب آیا، اور امداد دینے کے لیے یہاں حکومتی افراد، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور مخیر افراد کی آمد شروع ہوئی تو ان کے لیے ایک اور واش روم کی ضرورت پڑی۔ تب ایک این جی او نے یہاں ایک اور باتھ روم بنوا دیا لیکن وہ صرف باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، اور عام دنوں میں اسے کوئی استعمال نہیں کرتا تھا۔

گاؤں کی خواتین صبح اور رات کے اوقات میں گھر سے دور، کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور تھیں۔ رحمت بی بی بتاتی ہیں، ’زیادہ مشکل اندھیرا ہونے کے بعد پیش آتی تھی۔ اس وقت کسی عورت کا اکیلے جانا ناممکن تھا۔ چنانچہ دو یا تین عورتیں مل کر ساتھ جایا کرتی تھیں، چھوٹی بچیاں عموماً اپنی بڑی بہنوں یا ماں کے ساتھ جاتیں۔‘

رحمت بی بی خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ

یہ ایک مستقل اذیت تھی جو گاؤں کی خواتین کو لاحق تھی۔ دن کے کسی بھی حصے میں اگر انہیں باتھ روم کی ضرورت پیش بھی آتی تو وہ اسے شام تک برداشت کرنے پر مجبور ہوتیں تاکہ مرد گھر لوٹ آئیں تو وہ سناٹے میں جا کر فراغت حاصل کرسکیں۔

گاؤں میں پہلے سے موجود 2 باتھ روم ان کے لیے غیر ضروری تھے، کیونکہ ان میں سے ایک تو مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، جبکہ دوسرا مردوں کے زیر استعمال تھا، لہٰذا وہ شرم کے مارے چاہ کر بھی اسے استعمال نہیں کرتی تھیں۔

باتھ روم کی سہولت نہ ہونے اور صفائی کے ناقص انتظام کے باعث 2 خواتین یہاں ڈائریا کے ہاتھوں جان سے بھی دھو چکی تھیں۔

ان خواتین کی زندگی کا یہ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت حل ہوا جب ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے یہاں واش رومز بنوائے۔ خواتین کے لیے بنوائے جانے یہ دو بیت الخلا ان کے لیے رحمت ثابت ہوئے جو ان کے گھروں کو نزدیک بنوائے گئے تھے اور وہ دن کے کسی بھی حصے میں انہیں استعمال کرسکتی تھیں۔

نو تعمیر شدہ بیت الخلا
نو تعمیر شدہ بیت الخلا

اس بارے میں تنظیم کے سربراہ منشا نور نے بتایا کہ یہاں پر بیت الخلا کی تعمیر کا مقصد ایک تو ان خواتین کو محفوظ باتھ روم کی سہولت فراہم کرنا تھا، دوسرا صفائی کے رجحان کو بھی فروغ دینا تھا۔ ’جب ہم نے یہاں بیت الخلا بنوانے کا ارادہ کیا تو گاؤں کی خواتین سے اس بارے میں تفصیلی مشاورت ہوئی۔ انہیں ایک محفوظ باتھ روم نہ ہونے کی پریشانی تو ضرور تھی تاہم وہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ کھلے میں رفع حاجت اور صفائی کا فقدان ان کی صحت کے لیے خطرناک مسائل پیدا کرسکتا ہے۔‘

منشا نور کے مطابق ان خواتین کو باتھ روم کی تعمیر کے ساتھ صحت و صفائی کے اصولوں کی بھی ٹریننگ دی گئی جیسے باتھ روم کے استعمال کے بعد ہاتھ دھونا، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، اور صابن کا باقاعدہ استعمال کرنا۔

کیا بیت الخلا کی تعمیر میں کوئی سماجی رکاوٹ بھی ہے؟

حکومت پاکستان کے ساتھ سینی ٹیشن پر کام کرنے والی تنظیم واٹر ایڈ کے پروگرام مینیجر عاصم سلیم کے مطابق گاؤں دیہات میں گھروں میں، یا گھروں کے قریب ٹوائلٹ نہ بنوانا، اس امر میں کہیں غربت ان کی راہ میں حائل ہے اور کہیں پر یہ ان کی صدیوں پرانی روایات و عادات کا حصہ ہے۔ ’ہر گاؤں میں ایک بیت الخلا ضرور ہوتا ہے لیکن اسے مہمانوں کے لیے تعمیر کیا جاتا ہے۔ مہمانوں کے لیے ایک مخصوص کمرہ بیٹھک (اور بعض زبانوں میں اوطاق) بیت الخلا کے بغیر ادھورا ہے، یہ کمرہ گاؤں کے بیچوں بیچ تعمیر کیا جاتا ہے اور اسے صرف مہمانوں کے لیے ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘

عاصم کے مطابق اکثر گاؤں دیہات کے مقامی مرد و خواتین کھلے میں رفع حاجت کے عادی ہوتے ہیں اور یہ ان کی عادت بن چکا ہے چنانچہ ان کی ٹیم اسی عادت کو تبدیل کرنے پر کام کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بعض جگہوں پر گاؤں والے ایک خاص وجہ کے تحت بھی بیت الخلا نہیں بنواتے۔ چونکہ گاؤں والے کنوؤں اور ہینڈ پمس کے ذریعے زمین کا پانی نکال کر اسے پینے، فصلوں کو پانی دینے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور ایسی جگہوں پر ایک باقاعدہ سیوریج سسٹم موجود نہیں ہوتا تو وہ سمجھتے ہیں کہ بیت الخلا بنوا کر اسے استعمال کرنا زیر زمین پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔ سیوریج سسٹم کی عدم موجودگی کے سبب وہ بیت الخلا بنوانا بے فائدہ سمجھتے ہیں۔

بیت الخلا کی تعمیر میں کیا چیلنجز درپیش ہیں؟

محکمہ صحت سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ میں سینی ٹیشن پالیسی سنہ 2017 میں تشکیل دی گئی تھی جس کا موٹو ’صاف ستھرو سندھ‘ رکھا گیا۔ اس کے تحت صوبائی حکومت کا وعدہ ہے کہ سنہ 2025 تک سندھ سے کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔

لیکن ترجمان کا کہنا ہے کہ اس میں انہیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، ’سب سے پہلا چیلنج تو لوگوں کی اس عادت کو بدلنا ہے کہ وہ کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کو ترک کر کے ٹوائلٹس کا استعمال شروع کریں۔‘

ان کے مطابق اس سلسلے میں کمیونٹیز کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ ان کی صدیوں پرانی اس عادت کو بدلنے کے لیے کون سا طریقہ آزمایا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ کئی مقامات پر جب لوگوں کو ٹوائلٹس تعمیر کروا کر دیے گئے تو ایک صاف ستھری اور طریقے سے بنی ہوئی جگہ کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کو ان کا دماغ تیار نہیں ہوا، چنانچہ اکثر افراد نے انہیں بطور اسٹور روم اور بعض نے بطور کچن استعمال کرنا شروع کردیا۔

ترجمان کے مطابق اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں 74 فیصد افراد کو بیت الخلا کی سہولت میسر ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صرف 48 فیصد ہے۔

ایک طرف تو سندھ حکومت اس غیر صحتمند رجحان کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے، تو دوسری طرف مختلف این جی اوز بھی ان کی مدد کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف، جنہیں سنہ 2030 تک مکمل کیا جانا ہے، میں چھٹا ہدف بھی اسی سے متعلق ہے کہ ہر شخص کے لیے محفوظ بیت الخلا کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔

گاؤں دیہات کی خواتین کو ٹوائلٹ کی عدم موجودگی میں تکلیف میں مبتلا دیکھ کر امید کی جاسکتی ہے کہ سنہ 2025 تک کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کے خاتمے کا ہدف پورا ہوسکے گا۔

Comments

- Advertisement -