تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

الہام کا فرشتہ

نوبل انعام یافتہ ترک ناول نگار اور مصنّف اورحان پاموک کا فکر و فلسفہ اور کسی ادبی موضوع پر ان کی رائے اور اظہارِ خیال بھی بہت شان دار اور قابلِ‌ توجہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مشہور اس ادیب کی گفتگو کا ایک ایسا ہی ٹکڑا ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس کا ترجمہ اجمل کمال نے کیا ہے۔

"میرے نزدیک کسی ادیب کا راز الہام میں نہیں، کیوں کہ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ الہام کہاں سے آتا ہے بلکہ ادیب کی ضد اور صبر میں پوشیدہ ہے۔

ترکی زبان کی وہ خوب صورت کہاوت، سوئی سے کنواں کھودنا، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ادیبوں ہی کے لیے وضع کی گئی تھی۔

پرانی حکایتوں میں مجھے فرہاد کا صبر بہت عزیز ہے جس نے عشق کی خاطر پہاڑ کھودا تھا، اور میں اسے سمجھتا بھی ہوں۔ اپنے ناول مائی نیم از ریڈ میں جہاں میں نے ان قدیم ایرانی میناتور سازوں کا تذکرہ کیا ہے جو برسوں ایک ہی گھوڑے کا نقش کھینچنے کی مشق کیا کرتے تھے، موقلم کی ایک ایک جنبش کو ذہن نشین کرتے رہتے تھے، وہاں میں جانتا تھا کہ میں لکھنے کے مسلک کی، خود اپنی زندگی کی بات کر رہا ہوں۔ اپنی زندگی کو، دوسرے انسانوں کی کہانی کی طرح، آہستہ آہستہ، بیان کرنے، اس بیان کرنے کی قوّت کو اپنے اندر محسوس کرنے، میز پر بیٹھ کر صبر کے ساتھ خود کو اپنے فن میں، اپنے ہنر کے سپرد کرنے کے لیے کسی ادیب کو سب سے پہلے امید پرستی حاصل ہونا ضروری ہے۔

الہام کا فرشتہ بعض ادیبوں کے پاس اکثر آتا ہے اور بعض کے پاس کبھی نہیں، لیکن وہ ان ادیبوں کو پسند کرتا ہے جو امید اور اعتماد رکھتے ہیں، اور جس وقت کوئی ادیب خود کو سب سے زیادہ تنہا محسوس کر رہا ہو، جس وقت وہ اپنی کوششوں، اپنے خوابوں اور اپنی تحریر کی قدر و قیمت کے بارے میں سب سے زیادہ زیادہ شہبے میں مبتلا ہو۔ جس وقت وہ اس خیال کا شکار ہو جائے کہ اس کی کہانی محض اس کی اپنی کہانی ہے۔ ٹھیک اس لمحے الہام کا فرشتہ اس پر ایسی کہانیاں، مناظر اور خواب منکشف کر دیتا ہے جو اس دنیا کی تعمیر میں کام آسکیں جسے وہ تخلیق کرنا چاہتا ہے۔

لکھنے کا کام جس میں، میں نے اپنی عمر گزاری ہے، اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میرا سب سے زیادہ متاثر کن احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ جملے یہ خیالات اور یہ صفحات جنہوں نے مجھے اس قدر سرشاری اور مسرت بخشی، دراصل میرے تخیل کی پیداوار نہیں تھے کہ انہیں کسی اور قوّت نے تلاش کر کے دریا دلی کے ساتھ مجھے عطا کر دیا تھا۔”

Comments

- Advertisement -