تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پابلو نرودا: ‘آؤ میزوں پر محبّت کے ڈھیر لگا دیں…’

’’پابلو نرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حُسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اور اتنی ہی انقلابی۔ چِلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہرشخص اسے جانتا ہے۔

کسی زمانے میں اس کے سَر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بدیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سَر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔

وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوش بو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوش بو اس کے نغمات میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

یہ سطور ترقی پسند ادب اور انقلابی شاعری کے لیے مشہور علی سردار جعفری کے مضمون سے لی گئی ہیں جو لاطینی امریکا کے ملک چِلی کے اس انقلابی شاعر کی شخصیت اور اس کی نظموں میں‌ کشش محسوس کرتے تھے۔

پابلو نرودا نے 1904ء میں اس دنیا میں آنکھ کھولی اور اس کی زندگی کا سفر 1973ء تک جاری رہا۔ اس نے ایک نظریاتی راہ نما اور انقلابی و رومانوی شاعر کی حیثیت سے دنیا میں نام کمایا، ادب کا نوبل انعام پایا، لیکن اس سفر میں تنگ دستی اور غربت کے ساتھ طرح طرح کی دوسری صعوبتیں اٹھانا پڑیں، روپوشی، گرفتاری اور جلاوطنی جھیلنے کے ساتھ وہ انقلابی نظمیں لکھتا رہا، جو غریب اور محکوم طبقے، چلی کے محنت کش اور مزدوروں میں جوش و ولولہ پیدا کرتیں اور انھیں‌ اپنے حق کے لیے ڈٹے رہنے پر اکساتی تھیں۔ اس کی ہسپانوی زبان میں شاعری کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں انگریزی، ہندی اور اردو بھی شامل ہیں۔

پابلو نرودا نے کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ ان کے زمانے میں معاشرہ رومانوی شاعری میں بے باکی کے لیے تیّار نہ تھا، لہٰذا قدامت پسندوں نے انھیں شہوت انگیز اور ہیجانی شاعر کہہ کر مسترد کیا، لیکن ان کے انسان دوست نظریات اور رومانوی شاعری کے امتزاج نے انھیں دنیا بھر میں مقبولیت دی۔

نیرودا کی شہرہ آفاق کتاب "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت” میں رومانوی رجحانات کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک نظم کے چند بند کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جو امنِ عالم کا ایک شان دار قصیدہ ہے، اور شاعر کی حبُ الوطنی سے سرشار ہے۔

مجھے اپنے چھوٹے سے سرد ملک کی سرزمین سے
اگنے والے پیڑوں کی جڑوں تک سے محبت ہے
اگر مجھے ہزار بار مرنا پڑے
تو میں اس سر زمین پر مروں گا
اگر مجھے ہزار بار پیدا ہونا پڑے
تو میں اس سر زمین پر پیدا ہوں گا
بلند قامت صنوبروں کے قریب
وہاں جہاں جنوبی ہوائیں طوفان خیز ہیں
اور نئی خرید ی ہوئی گھنٹیاں بج رہی ہیں

اور پھر دیکھیے کہ یہ حبُ الوطنی ساری دنیا کی محبّت کے سمندر کی ایک لہر بن جاتی ہے۔

کسی کو میرے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے
ہمیں سارے کرۂ ارض کے بارے میں سوچنا ہے
آؤ میزوں پر محبّت کے ڈھیر لگا دیں
میں نہیں چاہتا کہ خون دوبارہ
روٹیوں کو اور اناج کو اور موسیقی کو شرابور کر دے
میری خواہش ہے کہ سب میرے ساتھ آئیں
کان کن، ننھی سی لڑکی
وکیل، ملاح، گڑیاں بنانے والے
سب میرے ساتھ آئیں اور ہم مل کر سنیما دیکھیں
اور سرخ سے سرخ تر شراب پئیں
میں کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں آیا ہوں
میں تو یہاں گانے آیا ہوں
اور چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ گاؤ

Comments

- Advertisement -