جمعرات, جنوری 30, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 14

محمد سراج اور ماہرہ کی دوستی، بھارتی اخبار نے بھانڈا پھوڑ دیا!

0

بھارتی پیسر محمد سراج اور بالی ووڈ اداکارہ ماہرہ شرما کی دوستی کی خبروں سے متعلق ایک بھارتی اخبار نے بڑا انکشاف کیا ہے۔

ٹائمز آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ محمد سراج اداکارہ ماہرہ شرما کے ساتھ رومانوی تعلقات میں ہیں، ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ڈیٹنگ کررہے ہیں اور ایک دوسرے کو بہتر طور پر جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔

تاہم اب تک نہ ہی محمد سراج اور نہ ہی ماہرہ شرما کی جانب سے اپنے تعلق کی تصدیق یا تردید کی گئی ہے، دونوں کی درمیان دوستی کی خبریں نومبر 2024 میں میڈیا کی زینت بنی تھیں۔

سوشل میڈیا صارفین نے نوٹس کیا تھا کہ بھارتی کرکٹر محمد سراج نے انسٹاگرام پر ماہرہ شرما کی کچھ تصاویر کو لائیک کیا تھا جس کے بعد دنوں کی دوستی کی خبروں نے زور پکڑا تھا۔

ان خبروں کے سامنے آنے سے قبل ماہرہ شرما ساتھی اداکار پارس چھابڑا کے ساتھ تعلقات میں تھیں دونوں کی ملاقات بگ باس 13 کے گھر میں ہوئی تھی۔

تاہم دونوں کی دوستی 2023 میں اختتام کو پہنچ گئی تھی جب ماہرہ شرما نے پارس کو انسٹاگرام سے ان فالو کردیا تھا، بعدازاں پارس نے تصدیق کی تھی کہ ان میں بریک اپ ہوگیا ہے۔

زینائی بھوسلے سے ڈیٹنگ کی افواہیں، سراج کا دلچسپ ردعمل

فلسطینیوں سے متعلق مصر کے صدر نے ٹرمپ کو صاف انکار کر دیا

0

مصر کے صدر نے غزہ سے فلسطینیوں کو بےدخل  کر کے اپنے ملک میں بسانے سے متعلق ٹرمپ کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مصر فلسطینیوں کی نقل مکانی میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا اور ان کی بےدخلی "ناانصافی” اور مصر کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اردن اور مصر کی طرف سے فلسطینیوں کو غزہ سے پاک کرنے میں مدد کی تجویز پر السیسی نے کہا کہ مصری عوام، اگر میں ان سے کہوں گا کہ وہ [فلسطینیوں کو مصر جانے کو قبول کریں]، تو وہ سب سڑکوں پر نکل آئیں گے اور مجھ سے کہیں گے نہیں۔۔ میں اس ناانصافی میں شریک نہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں واضح طور پر کہتا ہوں فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنا ایک ناانصافی ہے جس میں ہم حصہ نہیں لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مصر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کے لیے پُرعزم ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، اس مسئلے کا حل دو ریاستی حل ہے جس کا مطلب ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے یہ تاریخی حقوق ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔

مصر سمیت عرب ریاستوں نے طویل عرصے سے فلسطینیوں کو غزہ سے ملنے سے انکار کیا ہے، اس علاقے کو وہ مستقبل کی فلسطینی ریاست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

0
sibt e hassan

لاہور کی شادمان کالونی سنٹرل جیل کو مسمار کر کے بنائی گئی۔ سنٹرل جیل کے آخری قیدیوں میں بہت سے سیاسی اور دینی اکابرین شامل تھے۔ مولانا مجاہد الحسینی بھی ان میں شامل تھے۔ اپنے زمانۂ اسیری میں مولانا کی سبطِ حسن سے جیل میں شناسائی ہوئی اور ان میں استاد اور شاگرد کا تعلق بھی بن گیا۔

مولانا مجاہد الحسینی نے نامور ترقی پسند دانش ور، ادیب اور صحافی سید سبطِ حسن سے اپنے اسی تعلق کی یادوں کو قلم بند کیا جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

سید سبطِ حسن بھی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار دیوانی احاطے میں آگئے تھے۔ وہاں استادی، شاگردی کے ادب و آداب کے تحت اربابِ جیل نے خصوصاً ہمارے لئے چارپائیوں کا انتظام کر دیا تھا، چونکہ رات کے مرحلے میں کسی نئے قیدی کے لئے چارپائی کا فوراً انتظام مشکل تھا، سید سبط حسن ہم زندانیوں میں سے کسی سے بھی متعارف نہیں تھے، مَیں نے ان کی تحریروں مطالعہ کیا تھا، روزنامہ امروز میں ان کے مضامین شریک اشاعت ہوتے رہتے تھے، اس لئے میں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا، اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے میری بابت احمد ندیم قاسمی اور حمید ہاشمی (نواسہ مولانا احمد سعید دہلوی) مدیرانِ امروز سے جو چند اچھے کلمات سنے ہوں گے، ان کے حوالے سے کہا کہ آپ سے غائبانہ تو متعارف تھا، آج ملاقات سے مسرت ہوئی اور وہ بھی جیل خانے میں۔

اس پر میں نے کہا:”دنیا میں جیل ٹھکانہ ہے آزاد منش انسانوں کا“…. مصرع سنتے ہی متانت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: خوب، اچھا ذوق ہے، پھر میں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دوسرے بزرگوں سے ان کا تعارف کرایا، تو انہوں نے بھی دعائیہ کلمات کے ساتھ سبط حسن صاحب کا خیر مقدم کیا، اس وقت جیل کے اس مسافر خانے میں جو کچھ میسر تھا، پیش کیا، چائے نوشی کے دوران میں نے فتح دین نامی مشقتی سے سرگوشی کی صورت میں کہا کہ میری چارپائی پر سبط حسن صاحب کا بستر بچھا دو اور میرا بستر گارڈینا کی اوٹ میں زمین پر بچھا دیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی۔

بعد ازیں ہم اپنے معمولات و عبادات سے فارغ ہو کر اپنے بستروں کی جانب راغب ہوئے اور سبط حسن صاحب کو ان کی آرام گاہ کی نشان دہی کی گئی تو انہوں نے دیگر حضرات کے ساتھ میری چار پائی مفقود دیکھ کر مشقتی سے دریافت کیا وہ کہاں ہے؟….اس نے گارڈینے کی اوٹ میں، اشارے کے ساتھ نشان دہی کی تو سبط حسن صاحب نے میرے پاس آتے ہی مستعّجب ہو کر کہا: یہ کیا؟

میں نے کہا، میری کمر میں کھنچاؤ محسوس ہوتا ہے، زمین پر لیٹنے سے راحت ملے گی۔ بایں ہمہ، سبط حسن صاحب نے مجھے اپنی چارپائی پر آرام کرنے پر اصرار کیا، مگر میرا عذر غالب آگیا اور میں نے انہیں بازو سے پکڑ کر چارپائی پر بٹھا دیا، چنانچہ حسنِ خُلق کا یہی مظاہرہ میرے اور سید سبط حسن کے درمیان گہرے تعلق خاطر کا موجب بن گیا تھا۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل امتیاز نقوی کے ساتھ وہ بھی حصول تعلیم قرآن کی سعادت پر آمادہ ہوگئے تھے، چنانچہ انہیں ابتدائی تعلیم عربی کی چھوٹی کتب سے متعارف کرایا گیا، حتیٰ کہ آیاتِ قرآن کے ترجمے اور بعد ازاں عربی گفتگو میں دسترس اور مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دوران میں نے ان سے انگریزی زبان کی تعلیم پانے کا آغاز کیا، جس پر ہم دونوں میں استاد، شاگرد کا تعلق استوار ہوگیا تھا۔

ہمیش ریشمیا کی فلم ’بیڈ ایس روی کمار‘ کے ڈائیلاگ پرومو نے دھوم مچا دی

0
ہمیش ریشمیا کی فلم ’بیڈ ایس روی کمار‘ کے ڈائیلاگ پرومو نے دھوم مچا دی

ممبئی: معروف بھارتی گلوکار و اداکار ہمیش ریشمیا اداکاری سے طویل وقفے کے بعد ایکشن فلم ’بیڈ ایس روی کمار‘ سے اسکرین پر واپس آ رہے ہیں۔

انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 6 جنوری 2025 کو جاری ’بیڈ ایس روی کمار‘ کے ٹریلز میں ہمیش ریشمیا کو فلم ’دی ایکسپوز‘ سے ’روی کمار‘ کے کردار کو دہراتے ہوئے دکھایا گیا۔

اب فلمسازوں نے ڈائیلاگ پرومو جاری کیا ہے جس نے فلم کے منتظر شائقین کا جوش مزید بڑھا دیا۔ ہمیش ریشمیا نے اپنے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ سے نیا ٹیزر جاری کیا۔

ٹیزر میں ہمیش ریشمیا اور ان کے دشمن کا سامنا ہوتا ہے جس میں وہ منفرد ڈائیلاگز کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس سے قبل ٹریلر میں کردار ’روی کمار‘ خطرناک اسٹنٹ کرتے ہوئے عمارتوں سے چھلانگ لگاتے ہوئے نظر آتا ہے۔

مداحوں کی جانب سے ڈائیلاگز کی خوب تعریف کی جا رہی ہے۔ فلم کے ڈائیلاگ کے علاوہ گانے ’تندوری ڈیز‘ اور ’دل کے تاج محل میں‘ بھی پہلے ہی دھوم مچا چکے ہیں۔

مرکزی کردار میں ہمیش ریشمیا اور پربھو دیوا کے ساتھ سنجے مشرا، جانی لیور، کیرتی کلہاری، منیش وادھوا، انیل جارج اور بھی شامل ہیں۔

فلم 7 فروری 2025 کو سینما گھروں کی زینت بنے گی۔

چین کے ڈیپ سیک سے متعلق امریکی بحریہ کا اہم فیصلہ

0
ڈیپ سیک

امریکی بحریہ نے چینی کمپنی ڈیپ سیک کا مصنوعی ذہانت کا ماڈل استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک اور چیٹ باٹ آگیا، چینی کمپنی کی ایپ ڈیپ سیک نے دنیا بھر میں دھوم مچادی۔

چینی ایپ کے لانچ ہوتے ہی امریکا اور یورپ میں ہلچل مچ گئی ، ایک ہفتے میں امریکا میں چینی ایپ کو سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا گیا، جس سے امریکا اور یورپ کی ٹیک کمپینز نے سرپکڑ لئے۔

امریکا میں چینی ڈیپ سیک کی اچانک مقبولیت کے بعد اسٹاک ایکسچینج میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے شئیرز گرگئے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ڈیپ سیک ایپ کو خطرناک قرار دے دیا اور تنبیہ کرتے ہوئے کہا اتنی سستی چینی ایپ کی لانچنگ کے بعد ہماری انڈسٹری کو جاگ جانا چاہیے۔

اب امریکی بحریہ نے بھی چینی ڈیپ سیک کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے متعلقین کو سخت ہدایات جاری کر دی ہیں۔ امریکی بحریہ کے اہلکاروں کو جاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ڈیپ سیک کا آرون ماڈل کسی بھی کام کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔

امریکی کمپنی اوپن اے آئی کے مالک کا کہنا ہے چینی ایپ متاثر کن ہے تاہم، ہم اس سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔

خیال رہے ڈیپ سیک اے آئی چیٹ باٹ ہے، جو صرف چھ ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہوئی ہے، چینی کمپنی نے دعویٰ کیا کہ یہ ایپ حساب، کوڈنگ اور دیگر معاملات میں اوپن اے آئی کے جدید ترین ماڈل سے مقابلہ کرسکتی ہے۔

’ایمن کو راحم پر یقین ہونے لگا ہے‘، اشنا شاہ بھی خوشی سے کھل اٹھیں

0

معروف اداکارہ اشنا شاہ نے ڈرامہ ’اے عشق جنون‘ میں ایمن اور راحم کے درمیان سرد مہری پگھلنے پر ایک ویڈیو شیئر کردی۔

اے آر وائی کی ڈرامہ سیریل اے عشق جنون میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ اشنا شاہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹا گرام پر اپنی ایک ویڈیو شیئر کی ہے، جس میں انھوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ڈرامے میں ایمن (اشنا) اب راحم (شہریار منور) پر یقین کرنے لگی ہیں۔

انسٹاگرام پر شیئر کی گئی ویڈیو میں سورج ڈھلنے کا وقت ہے اور بیک گراؤنڈ میں دانے پہ دانہ گانا لگا ہوا ہے جس پر اشنا شاہ رقص کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

’پاکستانیوں کا دماغ خراب ہوجاتا ہے‘ اشنا شاہ لباس پر تنقید کرنے والوں پر برس پڑیں

اے عشق جنون کی اداکارہ نے کیپشن نے لکھا کہ اب ایمن بھی راحم کی طرف بڑھنے لگی ہے اور یہ سب نتھیا گلی کے خوبصورت نظاروں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

اشنا شاہ نے اس پوسٹ کے کیپشن میں مزید لکھا کہ ‘ایمن مجھ سے زیادہ ضدی نہیں ہے، آجا مرے ڈالے میں بیٹھ جا، بیڈ سین بیڈ سین سلیپنگ‘۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Ushna Shah-Amin (@ushnashah)

خیال رہے کہ اے آر وائی کی ڈرامہ سیریل اے عشق جنون کے سوشل میڈیا ویوز بھی ملینز میں جارہے ہیں، ڈرامے کی ہدایت کاری کے فرائض قاسم علی مرید نے انجام دیے ہیں جبکہ اس کی کہانی سعدیہ اختر نے تحریر کی ہے۔

اے عشقِ جنون کو سکس سگما پروڈکشن نے پروڈیوس کیا ہے جبکہ اس کی کاسٹ میں شہریار منور، اشنا شاہ، شجاع اسد، ماہ نور حیدر، محمد احمد، سہیل سمیر، شبیر جان، ارسا غزل، محمود اسلم ودیگر شامل ہیں۔

ڈرائیونگ لائسنس فیس 5 سال کیلئے اپ ڈیٹ کردی گئی

0

سٹی ٹریفک پولیس نے ڈرائیونگ لائسنس کے فیس اسٹرکچر کے حوالے سے نئی معلومات شیئر کی ہیں جس میں کار/ جیپ کی لائسنس فیس سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔

لاہور کے ٹریفک پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے درست فیس اسٹرکچر کے حوالے سے بتایا گیا ہے اور شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ لازمی ڈرائیونگ لائسنس بنوائیں بصورت دیگر لائسنس کے بنا گاڑی چلانے پر ان کے خلافف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

ٹریفک پولیس کے مطابق ڈرائیور حضرات سے کسی بھی وقت لائسنس طلب کیا جاسکتا ہے اور لائسنس پیش کرنے میں ناکامی کی صورت میں چالان کیا جائے گا۔

کار، جیپ کے ڈرائیونگ لائسنس فیس کے حوالے سے ٹریفک پولیس نے بتایا کہ ٹیسٹ فیس کے طور پر 150 روپے چارج کیے جائیں گے جبکہ ایک سال کے لیے ڈرائیونگ لائسنس فیس 1980 روپے ہے۔

دو سالوں کے لیے ڈرائیونگ لائسنس فیس 3330 روپے ہوگی، اسی طرح تین سالوں کے لیے 4680، چار سالوں کے لیے 6030 اور پانچ سالوں کی معیاد کے لیے درست ڈرائیونگ لائسنس فیس7380 روپے ہوگی۔

پنجاب کے شہریوں کو مطلع کیا گیا ہے کہ وہ ویب سائٹ http://dlims.punjab.gov.pk کا وزٹ کریں جہاں انھیں ای لائسنس بنوانے کے حوالے سے بھی آپشن ملے گا۔

برطانیہ کا ورک ویزا کیسے حاصل کریں؟

0
برطانیہ کا ورک ویزا کیسے حاصل کریں؟

اسکلڈ ورکر ویزا (Skilled Worker Visa) غیر ملکی شہری کو برطانیہ جانے یا قیام کرنے کی اجازت دیتا ہے تاکہ وہ تصدیق شدہ ملازمت فراہم کرنے والی کمپنی کے ہاں نوکری کر سکے۔

اسکلڈ ورکر ویزا نے ’ٹائر 2 (جنرل) ورک ویزا‘ کی جگہ لے لی ہے اور یہ غیر ملکیوں کو برطانیہ میں کام کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ درخواست دہندہ کو ’یو کے اسکپڈ ورکر ویزا‘ حاصل کرنے کیلیے اہلیت کے مختلف تقاضوں کو پورا کرنا لازمی ہے۔

مذکورہ ویزا حاصل کرنے کیلیے آپ کے پاس ملازمت دینے والے کی جانب سے آفر لیٹر ہونا چاہیے جو ہوم آفس سے منظور شدہ ہو۔

ملازمت فراہم کرنے والے کی جانب سے سرٹیفکیٹ آف سپانسرشپ (سی او ایس) بھی ہونا چاہیے جس میں یہ واضح کیا گیا ہو کہ آپ کو کس طرح کی نوکری کی پیشکش کی گئی ہے۔

کام کی نوعیت اور سی او ایس ملنے کی تاریخ کے حساب سے آپ کو کم از کم تنخواہ ادا کی جانی چاہیے۔

اسکلڈ ورکر ویزا حاصل کرنے کیلیے آپ کو انگریزی زبان بولنے، پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے کے قابل ہونا چاہیے۔ درخواست جمع کرواتے وقت انگریزی میں قابلیت کو ثابت کرنا ضروری ہے۔

اسکلڈ ورکر ویزا پر قیام کا دورانیہ

مذکورہ ویزا حاصل کرنے والا شخص توسیع سے قبل 5 سال تک برطانیہ میں قیام کر سکتا ہے۔ ویزا کی میعاد ختم ہونے پر یا پھر نوکری تبدیل کرتے وقت توسیع یا اپ ڈیٹ کرنے کیلیے درخواست دینی ہوگی۔

ویزا کے اخراجات

اسٹینڈرڈ ویزا درخواست کی فیس 719 سے 1639 پاؤنڈز ہے تاہم ہر سال 1035 پاؤنڈز ہیلتھ کیئر سرچارج ادا کرنے ہوں گے۔ برطانیہ پہنچنے پر بینک اکاؤنٹ میں کم از کم 1270 پاؤنڈز کا ہونا ضروری ہے۔

اگر ملازمت امیگریشن کی تنخواہ کی فہرست میں ہے تو درخواست کی کم فیس ادا کریں گے۔

کم از کم تنخواہ

اسکلڈ ورکر ویزا حاصل کرنے کی شرط کم از کم سالانہ تنخواہ 38،700 پاؤنڈز ہے۔ تاہم امیگریشن سیلری لسٹ ملازمتوں کی وہ فہرست ہے جس میں کم از کم تنخواہ کی شرط نرم ہے۔

اگر امیگریشن سیلری لسٹ میں موجود ملازمت کیلیے اسپانسر کیا جا رہا ہے تو کم از کم سالانہ تنخواہ 30،960 پاؤنڈز ہے۔

وبالِ جاں

0
coffee cafe tea sad man

میرے ڈاک والے بکسے میں ایک موٹا لفافہ میرا منتظر تھا۔ میں نے اسے کھولا اور رقم گنی۔ یہ پوری تھی۔ اس میں ایک رقعہ بھی تھا جس پر آدمی کا نام اور تفصیل کہ وہ مجھے کہاں مل سکتا تھا۔ اس میں، اس کی ایک پاسپورٹ سائز تصویر بھی تھی۔ میں نے خود پر لعنت بھیجی۔مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے ایسا کیوں ہوا۔ میں پیشہ ور ہوں اور ایک پیشہ ور کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، لیکن یہ بس منہ پر آ ہی گئی۔

مجھے بندے کا نام پڑھنے کی ضرورت پیش نہ آئی، میں نے تصویر سے ہی اس بندے کو پہچان لیا تھا۔ گریس۔ پیٹرک گریس، یہ امن کا نوبل انعام یافتہ ایک اچھا آدمی تھا۔ واحد اچھا بندہ جسے میں جانتا تھا۔ اور اگر اچھے بندوں کی بات کی جائے تو دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو، جو اس کا مقابلہ کر سکے۔

میں پیٹرک سے صرف ایک بار ہی ملا تھا۔ اور یہ ملاقات اٹلانٹا کے ایک یتیم خانے میں ہوئی جہاں وہ ہم سے جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔ ہم سارا سال گندگی اور غلاظت میں گزارتے اور وہ ہمیں پیٹ بھر کھانا بھی نہ دیتے۔ اور اگر کوئی احتجاج میں اپنا منہ کھولتا تو وہ ہماری پٹائی چمڑے کی پیٹی سے کرتے۔ اکثر تو وہ یہ تکلیف بھی گوارا نہ کرتے کہ اس پیٹی کا بکسوا الگ کر دیں۔ لیکن جب وہاں گریس آیا تو انہوں نے یہ بات یقینی بنائی کہ ہم سب صاف ستھرے ہوں۔۔۔ ہم اور وہ موتری بھی، جسے وہ یتیم خانہ کہتے تھے۔ اس کے آنے سے پہلے، ڈائریکٹر نے ہمیں تنبیہہ کی کہ اگر کسی نے بھی منہ کھولا تو اسے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑنا تھا۔ اس کی تقریر سے ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ وہ جو کہہ رہا تھا، وہ اس نے کرکے بھی دکھانا تھا۔

گریس، جب، ہمارے کمرے میں داخل ہوا تو ہم چوہوں کی طرح خاموش اور دبکے ہوئے تھے۔ اس نے ہم سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہم آگے سے کچھ بھی نہ بو لے۔ ہر لڑکے نے اس سے تحفہ وصول کیا، اس کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنے بستر پر چلا گیا۔ مجھے ایک ڈارٹ بورڈ ملا۔ میں نے جب اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ میرے قریب ہوا۔ میں دبک گیا۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ شاید مجھے مارنے لگا تھا۔ گریس نے پیار سے میرے بالوں کو سہلایا اور بغیر کچھ بولے، میری قمیض اوپر اٹھائی۔ میں ان دنوں میں خاصی بکواس کیا کرتا تھا۔ گریس نے میری کمر پر نظر ڈال کر اس کا اندازہ کر لیا تھا۔ اس نے پہلے تو کچھ نہ کہا، لیکن پھر اس کے منہ سے مسیح کا نام تین چار بار نکلا۔ بالآخر اس نے میری قمیض چھوڑی اور مجھے گلے لگا لیا۔ اور جب اس نے مجھے گلے لگایا تو اس نے یقین دلایا کہ آئندہ کسی نے بھی مجھے ہاتھ نہیں لگانا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ لوگ بلا جواز آپ کے ساتھ اچھی طرح سے پیش نہیں آتے۔ مجھے لگا کہ یہ ایک طرح کا مکر تھا؛ اس نے کسی بھی لمحے اپنی پیٹی اتارنی تھی اور مجھے پیٹنا تھا۔ جتنی دیر اس نے مجھے گلے لگائے رکھا، میں یہ خواہش کرتا رہا کہ وہ وہاں سے چلا جائے۔ وہ چلا گیا اور اسی شام ہمارے یتیم خانے کا سارا عملہ بدل دیا گیا اور ہمیں ایک نیا ڈائریکٹر بھی مل گیا۔ اور تب سے کسی نے بھی مجھے دوبارہ ہاتھ نہ لگایا، سوائے اس سیاہ فام کے، جسے میں نے’جیکسن وِل‘ میں مار بھگایا تھا۔ کیا یہ ایک ایسا کام تھا جسے میں نے بغیر کسی معاوضے کے کیا تھا؟ اس کے بعد تو کسی کی بھی جرأت نہ ہوئی کہ میری طرف انگلی بھی اٹھا سکے۔

میں اس کے بعد پیٹرک گریس سےکبھی نہ مل پایا۔ لیکن میں اس کے بارے میں اخبارات میں بہت کچھ پڑھتا رہا۔ ان لوگوں کے بارے میں، جن کی اس نے مدد کی اور ان سارے اچھے کاموں کے بارے میں، جو وہ کرتا تھا۔ وہ ایک اچھا آدمی تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس سے اچھا انسان کہیں اور نہ تھا۔ وہ اس بد رنگ اور مکروہ دنیا میں واحد آدمی تھا، جس کا میں دین دار تھا۔ اور اب دو گھنٹے بعد ہی مجھے اس سے دوبارہ ملنا ہے۔ اور دو گھنٹے بعد ہی مجھے اس کے سَر میں ایک گولی داغنی ہے۔

میں اکتیس برس کا ہوں۔ میں جب سے اس کام میں پڑا ہوں، مجھے اب تک انتیس ٹھیکے مل چکے ہیں۔ ان میں سے چھبیس کو تو میں ایک ہی ہلّے میں پار کر گیا تھا۔ میں جن کو قتل کرتا ہوں، انہیں جاننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔ اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں انہیں کیوں مار رہا ہوں۔ دھندا، دھندا ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میں ایک پیشہ ور قاتل ہوں۔ اور کام میں میری ساکھ بہت اچھی ہے۔ اور ایسے پیشے میں، جیسا کہ میرا ہے، اچھی ساکھ ہی اہم ہوتی ہے۔ آپ اخبار میں اشتہار نہیں دیتے یا ایسے لوگوں کے لیے خصوصی بھاﺅ نہیں لگاتے جن کے پاس اچھی مالیت والے کریڈٹ کارڈ ہوں۔ اس دھندے میں آپ تبھی کامیاب ہوتے ہیں جب لوگوں کو آپ پر اعتماد ہو کہ آپ ان کا کام کر دیں گے۔ اسی لیے میری یہ پالیسی ہے کہ میں، اپنے معاہدے سے کبھی نہیں پھرتا۔ جب بھی کوئی بندہ میرا ریکارڈ دیکھتا ہے تو اسے سوائے مطمئن گاہکوں کے اور کچھ نہیں ملتا؛ مطمئن گاہگ اور سخت گیر کھرا پن۔

میں نے کیفے کے بالکل سامنے گلی میں ایک کمرہ کرایے پر لیا اور اس کے مالک کو دو ماہ کا کرایہ پیشگی دیتے ہوئے بتایا کہ میرا باقی کا سامان پیر وار کو پہنچنا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ اسے وہاں پہنچنے میں لگ بھگ آدھا گھنٹہ لگنا تھا، مطلب قتل کرنے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے اپنی بندوق جوڑی اور اس کی انفرا۔ ریڈ روشنی میں اس کا نشانہ بٹھایا۔ چھبیس منٹ ابھی باقی تھے۔ سگریٹ سلگا کر میں اس کوشش میں تھا کہ کسی شے کے بارے میں کچھ نہ سوچوں۔ میں نے سگریٹ پی کر اس کا بچا ہوا ٹکڑا کمرے کے ایک کونے میں پھینکا۔ اس جیسے بندے کو کون مارنا چاہے گا؟ وہ یا تو کوئی جانور ہو سکتا ہے یا کوئی ایسا بندہ جو مکمل طور پر پاگل ہو چکا ہو۔ میں گریس کو جانتا ہوں۔ اس نے مجھے تب گلے لگایا تھا جب میں ابھی بچہ تھا۔ لیکن دھندا تو دھندا ہے۔ ایک بار جب آپ احساسات کو در آنے دیتے ہیں تو سمجھیں دھندے میں آپ کا انت ہو گیا۔ اس کونے سے جہاں سگریٹ کا ٹکڑا گرا، قالین سے دھواں اٹھنے لگا۔ میں بستر سے اٹھا اور سگریٹ کے ٹکڑے کو مسلا۔ ابھی اٹھارہ منٹ باقی تھے۔ اٹھارہ منٹ اور، اور پھر یہ کام ختم ہو جانا تھا۔ مجھے فٹ بال کے بارے میں خیال آیا، ڈین مارینو۔۔۔ 42 ویں اسٹریٹ کی وہ طوائف بھی جو مجھے کار کی اگلی سیٹ پر بٹھا کر فلیتو کرنے لگتی ہے۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ میں کسی بھی شے کے بارے میں نہ سوچوں۔

وہ بالکل وقت پر آیا۔ اس کی اچھل اچھل کر چلنے والی چال اور کندھوں تک لمبے بالوں نے مجھے اس کو پہچاننے میں مدد دی۔ وہ کیفے کے باہر ایک انتہائی روشن جگہ پر پڑی میز کے پاس ایسے بیٹھا کہ اس کا چہرہ بالکل میرے سامنے تھا۔ یہ درمیانی دوری والے نشانہ کے حوالے سے ایک کامل زاویہ تھا۔ اور میں اسے آنکھیں بند کرکے بھی لگا سکتا تھا۔ انفرا۔ ریڈ کا نقطہ اس کے سر کے ایک طرف بائیں سے تھوڑا آگے تھا۔ میں اسے دائیں طرف اس وقت تک موڑتا رہا جب تک وہ بالکل وسط میں نہ پہنچ گیا اور تب میں نے اپنی سانس روک لی۔

اور جب، میرے لیے سب کچھ تیار تھا، ایک بوڑھا آدمی دو تھیلوں میں اپنا متاعِ حیات لیے، گھومتا گھماتا وہاں پہنچا۔۔۔ ایک عام بے گھر بندہ، جن سے یہ شہر بھرا پڑا ہے۔ جیسے ہی وہ کیفے کے سامنے پہنچا، اس کے تھیلوں میں ایک کا دستہ ٹوٹا اور تھیلا نیچے گر گیا اور اس میں موجود سارا کاٹھ کباڑ باہر نکلنے لگا۔ مجھے نظر آیا کہ گریس کے جسم میں ایک تناﺅ آیا اور اس کے منہ کے ایک کونے میں اینٹھن پیدا ہوئی، اور وہ ساتھ ہی بوڑھے کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ فٹ پاتھ پر گھٹنوں کے بل جھکا اور ردی اخبار اور ٹین کے خالی ڈبے اکٹھے کرتے ہوئے تھیلے میں واپس رکھنے لگا۔ میری شِست اس پر بندھی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ اب میرا تھا۔ لال نقطہ اب اس کے ماتھے کے وسط میں یوں چمک رہا تھا جیسے کسی انڈین کے ماتھے پر روغنی ٹیکا لگا ہو۔ یہ چہرہ جو کہ اب میرا تھا، بوڑھے کو دیکھ کر مسکرایا تو اس پر ایک چمک آئی۔ ایسی چمک جو کسی گرجا گھر میں دیوار پر ٹنگی مقدس مذہبی پیشواﺅں کی پینٹنگز میں ان کے چہروں پر ہوتی ہے۔

میں نے شِست سے نظر ہٹائی اور اپنی انگلی کو غور سے دیکھا۔ یہ ٹریگر کی پکڑ پر کانپ رہی تھی۔ یہ نہ صرف باہر بلکہ سُن بھی تھی۔ میں اس انگلی کے ساتھ کام پورا نہیں کر سکتا تھا۔ خود کو دھوکہ دینے کی ضرورت نہیں ، مجھ سے یہ کام ہونا ہی نہ تھا۔ میں نے سیفٹی کیچ لگایا، بولٹ کو واپس دھکیلا اور گولی اپنے چیمبر میں واپس چلی گئی۔

میں بندوق کو اس کے بکسے میں رکھا اور اسے ساتھ لیے کیفے کی طرف بڑھا۔ اب یہ بندوق نہیں تھی، یہ اس کے پانچ بے ضرر حصے تھے۔ میں گیا اور گریس کی میز پر اس کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا اور ایک کافی منگوائی۔ اس نے مجھے فوراً پہچان لیا۔ اس نے مجھے پچھلی بار تب دیکھا تھا جب میں فقط گیارہ برس کا لڑکا تھا لیکن اسے، مجھے پہچاننے میں کوئی دِقت نہ ہوئی۔ اسے میرا نام تک یاد تھا۔ نوٹوں سے بھرا لفافہ میز پر رکھ کر میں نے اسے بتایا کہ کسی نے، اسے قتل کرنے کے لیے میری خدمات کرایے پر لیں تھیں۔ میری کوشش تھی کہ خود کو ٹھنڈا رکھوں اور ایسا ظاہر کروں کہ جیسے میں نے یہ کام کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ گریس مسکرایا اور اس نے کہا کہ اسے یہ پتہ تھا۔ اور یہ کہ یہ بندہ وہ خود ہی تھا جس نے لفافے میں مجھے پیسے بھجوائے تھے کیونکہ وہ مرنا چاہتا تھا۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ میں اس سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ میں ہکلایا اور پوچھا کہ کیوں؟ کیا اسے کوئی مہلک بیماری لاحق تھی؟ ”بیماری؟“ ،اس نے قہقہہ لگایا۔ ” ہاں، ایک طرح سے۔ تم یہ کہہ سکتے ہو۔“ اس کے منہ کے ایک کونے میں پھر سے اینٹھن ابھری، ویسی ہی جیسی میں کھڑکی میں سے، پہلے بھی دیکھ چکا تھا، اور پھر اس نے بولنا شروع کیا؛

”میں جب بچّہ ہی تھا، یہ بیماری تب سے مجھے لاحق ہے۔ اس کی نشانیاں بہت واضح تھیں، لیکن کسی نے بھی اس کا علاج کرانے کی کوشش نہ کی۔ میں ہمیشہ اپنے کھلونے دوسرے بچّوں کو دے دیتا تھا۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا، میں نے کبھی کوئی شے چرائی نہ تھی۔ مجھے کبھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ اسکول میں لڑائی کے دوران جوابی حملہ کروں۔ مجھے ہر بار یہ پتہ ہوتا کہ میں نے اپنا دوسرا گال ہی آگے کرنا تھا۔ میرے دل کی اچھائی ایک مجبوری کی طرح دن بدن بڑھتی گئی لیکن کوئی بھی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کے برعکس اگر میں اندر سے برا ہوتا تو وہ مجھے کسی نہ کسی طور اسے کم کرنے پر مائل کرتے یا کچھ اور کرتے۔ وہ اسے ختم کرنے کی بھی کوشش کرتے۔ لیکن جب آپ اچھے ہوتے ہیں ؟۔۔۔ تو ہمارے سماج میں لوگوں کو یہ بات زیادہ راس آتی ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں اسے وصول کرتے رہیں۔۔۔ اور جواب میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے چند تعریفی کلمات کہتے رہیں۔ یوں میری حالت مزید بگڑتی گئی۔ یہ اس حد تک بگڑ گئی کہ میں تسلی سے کھانا بھی نہیں کھا سکتا اور میں ہر نوالہ چبانے کے بعد رُک جاتا اور ڈھونڈتا کہ مجھ سے زیادہ بھوکا کہیں کوئی اور تو نہیں۔۔۔ تاکہ میں اپنا کھانا اس سے بانٹ کر کھا سکوں۔ اور تو اور راتوں میں میرا سونا حرام ہو گیا۔ خود ہی سوچو کہ ایک بندہ، نیو یارک میں رہتے ہوئے سونے کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے، جبکہ اس کے گھر سے ساٹھ فٹ کے فاصلے پر پارک میں، بینچوں پر بیٹھے لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں؟

اس کے منہ کے کونے پر اینٹھن پھر سے چھائی اور اس کا سارا بدن لرز اٹھا۔ ”میں اس طرح زندہ نہیں رہ سکتا، نیند کے بغیر، کھانے کے بغیر، محبت کے بغیر، زندگی کیسے گزر سکتی ہے۔ ایسا بندہ جس کے پاس محبتیں لٹانے کے لیے وقت ہے، جب کہ اس کے گردا گرد بے تحاشہ تکلیفیں ہیں، زبوں حالی ہے؟ یہ ایک برا خواب ہے۔ میرے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرو۔ میں نے تو ایسا کبھی نہیں چاہا تھا۔ یہ تو ایک طرح کا ’ ڈائی بُک‘ ہے، فرق بس اتنا ہے کہ شیطان کی جگہ آپ میں ایک فرشتہ گھس جائے۔ لعنت ہے۔ اگر شیطان مجھ میں گھسا ہوتا تو کسی نہ کسی نے مجھے کب کا ختم کر دینا تھا۔ لیکن یہ فرشتہ پن؟“ گریس نے ہولے سے آہ بھری اور اپنی آنکھیں بند کیں۔

” سنو۔“ ، وہ پھر سے بولنے لگا، ” یہ ساری رقم لو۔ جاﺅ اور کسی چھت یا بالکنی میں جا کر اپنی جگہ سنبھالو اور اپنا کام ختم کرو۔ ظاہر ہے کہ میں یہ کام خود نہیں کر سکتا۔ اور میرے لیے زندہ رہنا ہر آنے والے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مہربانی کرو، اوپر کسی چھت پر جاﺅ اور یہ کام کر دو۔ میں تم سے التجا کرتا ہوں۔“ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ یہ ایک اذیت بھرا چہرہ تھا، ویسے ہی جیسے صلیب پر لٹکے ہوئے مسیح کا ہو۔۔۔۔ بالکل مسیح جیسا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے پتہ ہی نہ تھا کہ میں کیا کہوں۔ میں، جس کے پاس ہمیشہ جواب ہوتا تھا، اقرار لینے والے پادری کے لیے، مئے خانے میں بیٹھی ایک طوائف کے لیے یا کسی وفاقی پلسیے کے لیے، لیکن اس کے لیے؟ میں اس کے سامنے یتیم خانے والا وہی ایک ننھا، ڈرا ہوا بچّہ تھا، جو ہر غیر متوقع حرکت پر دبک جاتا تھا۔ اور وہ ایک اچھا بندہ تھا اور میں اسے کبھی بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔ میں تو اسے مارنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میری انگلی نے تو ٹریگر کے گرد لپٹنا ہی نہیں تھا۔

”مسٹر گریس، میں معذرت خواہ ہوں۔“ میں کافی دیر بعد ہولے سے بولا، ” میں یہ نہیں۔۔۔“
” تم مجھے مار بھی نہیں سکتے۔“ ، وہ مسکرایا ، ” چلو ٹھیک ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ تم پہلے نہیں ہو۔ تم سے پہلے بھی دو بندے اور تھے جنہوں نے مجھے لفافہ لوٹا دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب بد دعا کا حصہ ہے۔ تم، یتیم خانہ اور سب۔۔۔ “، اس نے کندھے اچکائے، ” اور میں روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہوں۔ ایسے ہی مجھے خیال آیا تھا کہ شاید تم میری بھلائی کا بدلہ چکا دو گے۔“

”مسٹر گریس، میں معذرت خواہ ہوں۔“ میں نے پھر سے سرگوشی کی۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے، ” کاش کہ میں ایسا کر سکتا۔۔۔“

”اس کا ملال مت کرو۔“ اس نے کہا، ” میں سمجھتا ہوں۔ کچھ نہیں بگڑا۔ چھوڑو دفع کرو۔“، اور جب اس نے مجھے کافی کا بل اٹھاتے دیکھا تو وہ منہ ہی منہ میں مسکرایا۔ ” کافی میرے کھاتے میں، اور میں اس پر اصرار کرتا ہوں، تمہیں پتہ ہی ہے کہ ایسا کرنا ہی تو میری بیماری ہے۔“ مڑا تڑا نوٹ جیب میں واپس رکھتے ہوئے، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چل دیا۔ جب میں چند قدم آگے بڑھ گیا تو اس نے مجھے آواز دی۔ میں اپنی بندوق وہیں بھول گیا تھا۔

میں، دل ہی دل میں خود پر لعنت بھیجتا، اسے لینے واپس گیا اور مجھے لگا جیسے میں اس پیشے میں نووارد ہوں۔

تین دن بعد، ڈیلس میں کوئی سینیٹر میرے ہاتھوں مرا۔ یہ مشکل کام تھا۔ دو سو گز کی دوری، آدھا چھپا آدھا نظر آتا بندہ، اوپر سے ایک طرف کو کھینچتا ہوا کا دباﺅ، پھر بھی وہ فرش پر گرنے سے پہلے مر چکا تھا۔

(ایٹگر کریٹ کا عبرانی افسانہ جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)

رشتے کے تنازع پر ساس کو قتل کرنے پر مجرم کو سزائے موت

0

کراچی: رشتے کے تنازع پر ساس کو قتل کرنے والے مجرم کو عدالت نے سزائے موت دیدی، رشتےدار کو زخمی کرنے پر قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غربی کی عدالت میں مذکورہ کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے رشتے کے تنازع پر ساس کی جان لینے والے شخص کو سزائے موت کا حکم سنایا، رشتےدار کو زخمی کرنے پر مجرم فرید کو 7 سال قید کی بھی سزا سنائی گئی۔

 

10 سالہ بچی سے زیادتی کرنے والے مجرم کو سزائے موت کا حکم

 

علاوہ ازیں مفرور ملزم بشیر احمد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے، مفرور ملزم کی گرفتاری سے متعلق ہر 15 روز بعد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

2018 میں 2 افراد نے ساس کو قتل کیا تھا، مقتولہ کے بھائی نے پیرآباد تھانے میں مذکورہ قتل کا مقدمہ درج کرایا تھا۔

سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے والے 4 افراد کو سزائے موت